Tafseer-al-Kitaab - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جو لوگ یہ بہتان (گھڑ کر) لائے ہیں تم ہی میں کا ایک ٹولہ ہیں۔ اس (واقعے) کو اپنے حق میں برا نہ سمجھو بلکہ (بہ اعتبار انجام کے) یہ تمہارے حق میں بہتر (ہی بہتر) ہے۔ ان میں سے ہر شخص کو جتنا کچھ اس نے کیا تھا گناہ ہوا اور جس شخص نے اس (واقعے) میں سب سے بڑا حصہ لیا اس کے لئے تو بڑا (سخت) عذاب ہے۔
[10] یہاں سے اس واقعے کا ذکر ہے جس میں مدینہ کے منافقین نے سیّدہ عائشہ ؓ پر زنا کا الزام لگایا تھا اور اس کا اتنا چرچا کیا تھا کہ بعض بھولے بھالے مسلمان بھی متاثر ہوگئے تھے۔ اس واقعے کی تفصیل صحیح بخاری میں مذکور ہے۔ [11] یہ خطاب ان مسلمانوں کی تسلی کے لئے ہے جنہیں اس واقعے سے صدمہ پہنچا تھا بالخصوص سیّدہ عائشہ ؓ اور ان کا گھرانہ۔ کیا یہ شرف تھوڑا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے کلام پاک میں سیّدہ عائشہ ؓ کی برأت اتاری اور دشمنوں کو رسوا کیا اور قیامت تک کے لئے سیّدہ عائشہ ؓ کا ذکر خیر قرآن پڑھنے والوں کی زبان پر جاری کردیا۔ پھر اس واقعے میں خیر کا پہلو یہ بھی تھا کہ یہ واقعہ اسلام کے تمدنی قوانین میں بڑے اہم اضافوں کا سبب بن گیا جن کا ذکر آگے اس سورت میں آ رہا ہے۔ [12] یعنی جتنا کسی نے اس فتنے میں حصہ لیا تھا اتنا ہی اس نے گناہ سمیٹا اور سزا کا مستحق ہوا۔ کسی نے فتنہ اٹھانے والے کی زبانی موافقت کی، کوئی سن کر ہنس دیا، کوئی خاموش رہا۔ غرض جس نے جو کیا اس کا بدلہ پائے گا۔ [13] مراد اس سے عبداللہ بن ابی، رئیس المنافقین ہے جو فتنے کا اصل بانی تھا۔
Top