Al-Quran-al-Kareem - Ash-Shu'araa : 94
اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً١ۚ فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ حَدَآئِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ١ۚ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَرَهَا١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ١ؕ بَلْ هُمْ قَوْمٌ یَّعْدِلُوْنَؕ
اَمَّنْ : بھلا کون خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضَ : اور زمین وَاَنْزَلَ : اور اتارا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی فَاَنْۢبَتْنَا : پس اگائے ہم نے بِهٖ : اس سے حَدَآئِقَ : باغ (جمع) ذَاتَ بَهْجَةٍ : بارونق مَا كَانَ : نہ تھا لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ تُنْۢبِتُوْا : کہ تم اگاؤ شَجَرَهَا : ان کے درخت ءَاِلٰهٌ : کیا کوئی معبود مَّعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ بَلْ : بلکہ هُمْ : وہ قَوْمٌ : لوگ يَّعْدِلُوْنَ : کج روی کرتے ہیں
پھر وہ اور تمام گمراہ لوگ اس میں اوندھے منہ پھینک دیے جائیں گے۔
فَكُبْكِبُوْا فِيْهَا هُمْ وَالْغَاوٗنَ۔۔ : ”کَبَّ یَکُبُّ“ منہ کے بل گرانا۔ ”کَبْکَبَ“ میں لفظ کے تکرار سے معنی میں تکرار پیدا ہو رہا ہے، بار بار گرانا۔ یعنی ان کے باطل معبود اوندھے منہ جہنم میں ایک دوسرے کے اوپر بار بار گرائے جائیں گے، یعنی جب انھیں اوندھے منہ ڈالا جائے گا تو بار بار ٹھوکریں کھاتے ہوئے، الٹ پلٹ ہوتے ہوئے نیچے گرتے جائیں گے، حتیٰ کہ اس کی گہرائی تک پہنچ جائیں گے۔ ان کے ساتھ ان کی عبادت کرنے والے گمراہ لوگ اور ابلیس کے تمام لشکر بھی اسی طرح گرائے جائیں گے۔ بتوں کا ذکر پہلے فرمایا، تاکہ پوجنے والوں کو انھیں پہلے گرتے ہوئے دیکھ کر مزید عبرت ہو۔ ابلیس کے لشکروں سے مراد اس کے تمام پیروکار ہیں جو دوسروں کو بھی گمراہ کرتے رہے۔ طبری نے معتبر سند کے ساتھ ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ ”فَكُبْكِبُوْا فِيْهَا“ کا معنی ہے اس میں جمع کیے جائیں گے، گویا الٹے منہ گراتے ہوئے سب کو وہاں جمع کردیا جائے گا۔ [ طبري : 26888 ]
Top