Tafseer-al-Kitaab - Al-Qasas : 82
وَ اَصْبَحَ الَّذِیْنَ تَمَنَّوْا مَكَانَهٗ بِالْاَمْسِ یَقُوْلُوْنَ وَیْكَاَنَّ اللّٰهَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ یَقْدِرُ١ۚ لَوْ لَاۤ اَنْ مَّنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا لَخَسَفَ بِنَا١ؕ وَیْكَاَنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ۠   ۧ
وَاَصْبَحَ : اور صبح کے وقت الَّذِيْنَ : جو لوگ تَمَنَّوْا : تمنا کرتے تھے مَكَانَهٗ : اس کا مقام بِالْاَمْسِ : کل يَقُوْلُوْنَ : کہنے لگے وَيْكَاَنَّ : ہائے شامت اللّٰهَ : اللہ يَبْسُطُ : فراخ کردیتا ہے الرِّزْقَ : رزق لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کے لیے چاہے مِنْ : سے عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَيَقْدِرُ : اور تنگ کردیتا ہے لَوْلَآ : اگر نہ اَنْ : یہ کہ مَّنَّ اللّٰهُ : احسان کرتا اللہ عَلَيْنَا : ہم پر لَخَسَفَ بِنَا : البتہ ہمیں دھنسا دیتا وَيْكَاَنَّهٗ : ہائے شامت لَا يُفْلِحُ : فلاح نہیں پاتے الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع)
اور جو لوگ کل (شام) اس کی جگہ (ہونے) کی تمنا کر رہے تھے وہ (آج) صبح کہنے لگے، '' افسوس، (ہم بھول گئے تھے کہ) اللہ اپنے بندوں میں سے جس کی روزی چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے اور (جس کی چاہتا ہے) نپی تلی کردیتا ہے۔ اگر اللہ ہم پر (اپنا) کرم نہ کرتا تو (قارون کی طرح) ہمیں بھی دھنسا دیتا۔ افسوس، (ہمیں یاد نہ رہا کہ) کافر (کبھی) فلاح نہیں پایا کرتے ''۔
[51] یعنی کسی شخص کی دنیوی ترقی و عروج دیکھ کر یہ نہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اللہ کا مقبول بندہ ہے اور اللہ اسے انعام دے رہا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کا رزق تنگ ہے تو ضروری نہیں کہ اللہ اس سے ناراض ہے اور اسے سزا دے رہا ہے۔ رزق کی کشادگی و تنگی جو کچھ بھی ہوتی ہے وہ اللہ کی مشیت کی بناء پر ہوتی ہے اور اس مشیت میں اللہ کی کچھ دوسری مصلحتیں بھی کارفرما ہوتی ہیں۔ [52] یہاں قارون کا قصہ بھی مشرکین کے اسی عذر کے جواب میں بیان کیا گیا ہے جو آیت 57 میں مذکور ہے اور جس پر اب تک مسلسل گفتگو ہو رہی تھی۔ اس قصے سے جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ قارون کی ہلاکت اس کی سرکشی اور اللہ سے بغاوت کی وجہ سے ہوئی۔ اگر وہ سچا مومن اور اللہ کا شکرگزار بندہ ہوتا تو اس کا وہ حشر نہ ہوتا۔ لہذا مشرکین مکہ کا یہ سمجھنا کہ ایمان لانے والے تباہ و برباد ہوجائیں گے بالکل غلط ہے ان کی تباہی و بربادی ایمان لانے سے نہیں بلکہ انکاروسرکشی کی وجہ سے ہوگی جس طرح قارون کی ہوئی۔
Top