Tafseer-al-Kitaab - Al-Ankaboot : 45
اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ١ؕ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ
اُتْلُ : آپ پڑھیں مَآ : جو اُوْحِيَ : وحی کی گئی اِلَيْكَ : آپ کی طرف مِنَ الْكِتٰبِ : کتاب سے وَاَقِمِ : اور قائم کریں الصَّلٰوةَ ۭ : نماز اِنَّ : بیشک الصَّلٰوةَ : نماز تَنْهٰى : روکتی ہے عَنِ الْفَحْشَآءِ : بےحیائی سے وَالْمُنْكَرِ ۭ : اور برائی وَلَذِكْرُ اللّٰهِ : اور البتہ اللہ کی یاد اَكْبَرُ ۭ : سب سے بڑی بات وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تَصْنَعُوْنَ : جو تم کرتے ہو
(اے پیغمبر، یہ) کتاب جو تمہاری طرف وحی کی گئی ہے اس کی تلاوت کرتے رہو اور نماز قائم کرو۔ بلاشبہ نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیز ہے۔ اور اللہ جانتا ہے جو کچھ (بھی) تم کرتے ہو۔
[16] خطاب بظاہر نبی ﷺ سے ہے مگر دراصل مخاطب تمام اہل ایمان ہیں جو کفار کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ سابقہ آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ تم سے پہلے بھی اہل ایمان کو آزمائشوں میں ڈالا گیا تھا اور وہ بھی اسی طرح مخالفین کے ظلم وستم و استہزا کا نشانہ بنے تھے جس طرح آج تم بنے ہوئے ہو۔ اب یہاں انھیں کفار کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کی عملی تدبیر یہ بتائی جا رہی ہے کہ وہ قرآن کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں کیونکہ انہی دو چیزوں سے مومن میں وہ زبردست صلاحیت پیدا ہوتی ہے جس سے وہ باطل کا کامیابی سے مقابلہ کر سکتا ہے۔ لیکن مومن کو تلاوت قرآن اور نماز سے یہ صلاحیت اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب کہ وہ قرآن کے محض الفاظ پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کی تعلیمات کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اپنی روح میں جذب کرتا چلا جائے۔ [17] اس کے دو مطلب ہیں، ایک یہ کہ نماز کا خاصہ طبعی یہی ہے کہ وہ عظمت الٰہی کی باربار یاد کرا کے ہر گناہ و معصیت سے روک دیتی ہے بشرطیکہ وہ تمام ظاہری اور باطنی آداب و شرائط کے ساتھ ادا کی جائے۔ اب اگر نماز کے آداب و شرائط ہی پوری طرح نہ ادا کئے جائیں تو اس نسبت سے نماز ناقص رہے گی اور پھر اسی مناسبت سے اس کی یہ طبعی خاصیت بھی ضعیف و مضمحل رہے گی یہاں تک کہ جو نماز بالکل سطحی اور اوپری ہوگی اور روح نماز سے بالکل خالی، اس میں برائیوں کے روک تھام والی قوت بھی گویا معدوم ہوگی۔ لہذا جو شخص نماز پڑھنے کے باوجود گناہوں سے نہ بچا تو سمجھ لو کہ اس کی نماز ہی میں قصور ہے۔ چناچہ نبی ﷺ نے فرمایا، '' جس شخص کو نماز نے فحش اور برے کاموں سے نہ روکا اس کی نماز نماز نہیں ہے۔ '' دوسرا مطلب یہ ہے کہ نماز کا برائیوں سے روکنا بطور اقتضاء ہو یعنی نماز کی ہر ہیئت اور اس کا ہر ذکر مقتضی ہے کہ جو انسان ابھی ابھی بارگارہ الٰہی میں اپنی بندگی اور فرمانبرداری کا اظہار و اقرار کر کے آیا ہے مسجد سے باہر آکر بھی بدعہدی اور شرارت نہ کرے۔ گویا نماز ہر مصلی کو حکم دیتی ہے کہ اوبندگی اور غلامی کا دعویٰ کرنے والے واقعی بندوں اور غلاموں کیطرح رہ، اور بزبان حال مطالبہ کرتی ہے کہ شرارت اور سرکشی سے باز آ۔ اب کوئی باز آئے یا نہ آئے مگر نماز بلاشبہ اس سے روکتی اور منع کرتی ہے۔ [18] یعنی نماز اللہ کے یاد کرنے کی بہترین صورت ہے اور اصلی فضیلت اسی کو ہے۔
Top