Tafseer-al-Kitaab - Aal-i-Imraan : 28
لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً١ؕ وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ
لَا يَتَّخِذِ :نہ بنائیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) اَوْلِيَآءَ : دوست (جمع) مِنْ دُوْنِ : علاوہ (چھوڑ کر) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : ایسا فَلَيْسَ : تو نہیں مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ فِيْ شَيْءٍ : کوئی تعلق اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ تَتَّقُوْا : بچاؤ کرو مِنْھُمْ : ان سے تُقٰىةً : بچاؤ وَيُحَذِّرُكُمُ : اور ڈراتا ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ نَفْسَهٗ : اپنی ذات وَاِلَى : اور طرف اللّٰهِ : اللہ الْمَصِيْرُ : لوٹ جانا
مسلمان اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں، اور جو ایسا کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، ہاں مگر ان ( کے شر) سے بچنے کے لئے اپنا بچاؤ کرنا چاہو ( تو عارضی طور پر ایسا کرسکتے ہو) اور ( دیکھو انسان کے شر سے ڈرتے ہوئے یہ حقیقت نہ بھولو کہ) اللہ تمہیں اپنے ( مواخذہ) سے ڈراتا ہے اور ( آخر کار تم سب کو) اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
[12] کافروں کے ساتھ حسن سلوک کی تین ہی ممکن صورتیں ہیں : (1) موالات یعنی دوستی، (2) مدارات یعنی ظاہری خوش خلقی و خاطرداری، (3) مواسات یعنی احسان و نفع رسانی۔ موالات تو کسی حال میں جائز نہیں۔ مدارات تین حالتوں میں درست ہے : ایک دفع شر کے لئے، دوسرے خود اس کافر کی مصلحت دینی یعنی ہدایت کے واسطے، تیسرے جب کافر مہمان ہو تو اس موقع پر۔ مواسات حالت جنگ میں ناجائز اور حالت امن میں جائز ہے۔ [13] اصل میں لفظ '' تقاۃ '' استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں ڈرنا، بچنا، پرہیزگاری، یہی معنی تقیہ کے بھی ہیں۔ '' تقاۃ '' یہاں ڈرنے اور بچنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مومن کسی دشمن اسلام جماعت کے چنگل میں پھنس گیا ہو اور اس کو ان کے ظلم و ستم کا خوف ہو تو اس کو اجازت ہے کہ اپنے ایمان کو بچائے رکھے حتی کہ شدید خوف کی حالت میں جو شخص برداشت کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کو کلمہ کفر تک کہہ جانے کی اجازت ہے۔ لیکن عزیمت کا مقام کچھ اور ہی ہے۔ ملاحظہ ہو سورة حٰم سجدہ آیت 30 صفحہ 4411۔ اگر تمہیں اشد مجبوری کی وجہ سے کہیں کفار کے ساتھ تقیہ کرنا ہو تو وہ بس اس حد تک ہونا چاہئے کہ اسلام کے مشن اور اسلامی جماعت اور کسی مسلمان کی جان و مال کو نقصان پہنچائے بغیر تم اپنی جان و مال کا تحفظ کرلو۔ اگر تم نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے اللہ کے دین کو یا اہل ایمان کی جماعت کو یا کسی فرد مومن کو بھی نقصان پہنچایا تو اللہ کے محاسبے سے ہرگز نہ بچ سکو گے۔ جانا تم کو بہرحال اس کے پاس ہے۔
Top