Tafseer-al-Kitaab - Al-Ahzaab : 36
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ١ؕ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے لِمُؤْمِنٍ : کسی مومن مرد کے لیے وَّلَا مُؤْمِنَةٍ : اور نہ کسی مومن عورت کے لیے اِذَا : جب قَضَى : فیصلہ کردیں اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اَمْرًا : کسی کام کا اَنْ يَّكُوْنَ : کہ (باقی) ہو لَهُمُ : ان کے لیے الْخِيَرَةُ : کوئی اختیار مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ : ان کے کام میں وَمَنْ : اور جو يَّعْصِ : نافرمانی کرے گا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَقَدْ ضَلَّ : تو البتہ وہ گمراہی میں جا پڑا ضَلٰلًا : گمراہی مُّبِيْنًا : صریح
اور (دیکھو، ) کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ سزاوار نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول (ان کے بارے میں) کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو (وہ اپنی رائے کو دخل دیں اور) اس معاملے میں ان کا (اپنا) اختیار (باقی) رہے۔ اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ صریح گمراہی میں پڑگیا۔
[35] حکم کا اطلاق عمومی ظاہر ہے۔ اس اعلان عام کے علاوہ اشارہ ایک خاص واقعہ کی جانب بھی ہے۔ زینب بنت جحش رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ آپ ﷺ نے ان کا نکاح زید بن حارثہ ؓ سے کرنا چاہا جو آپ کے صحابی اور منہ بولے بیٹے تھے اور مدتوں عوام میں زید بن محمد ﷺ نام سے مشہور رہے لیکن ایک زمانے میں وہ غلام رہ چکے تھے۔ زینب اور ان کے بھائی کو اپنے حسب و نسب کی بناء پر آزاد شدہ غلام سے نکاح پسند نہ تھا لہذا تامل کرنے لگے۔ اس پر یہ آیت اتری۔
Top