Tafseer-al-Kitaab - Al-Ahzaab : 72
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ
اِنَّا : بیشک ہم عَرَضْنَا : ہم نے پیش کیا الْاَمَانَةَ : امانت عَلَي : پر السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَالْجِبَالِ : اور پہاڑ فَاَبَيْنَ : تو انہوں نے انکار کیا اَنْ يَّحْمِلْنَهَا : کہ وہ اسے اٹھائیں وَاَشْفَقْنَ : اور وہ ڈر گئے مِنْهَا : اس سے وَحَمَلَهَا : اور اس اٹھا لیا الْاِنْسَانُ ۭ : انسان نے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا ظَلُوْمًا : ظالم جَهُوْلًا : بڑا نادان
بیشک ہم نے اپنی امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تو انہوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔ اس میں شک نہیں کہ انسان بڑا ظالم اور جاہل ہے۔
[63] امانت سے مراد اطاعت و فرائض ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ اگر تم انھیں اچھی طرح ادا کرو گے تو تمہیں اس کا صلہ دیا جائے گا اور اگر نافرمانی کرو گے تو عذاب دیا جائے گا۔ اگر قبول نہیں کرتے تو اس کے مکلف نہ بنائے جاؤ گے مگر اس صورت میں ثواب و عذاب کے بھی مستحق نہ ہو گے۔ انہوں نے عذاب کے سبب احتمال ثواب سے بھی دست برداری کی اور بار امانت اٹھانے سے انکار کردیا۔ یہی بات جب انسان سے پوچھی گئی تو اس نے اسے قبول کرلیا۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ آسمان، زمین اور پہاڑ جو غیر ذی روح اور بظاہر بےعلم و شعور ہیں ان کے سامنے پیش کرنے اور ان کے جواب دینے کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ لیکن اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوقات سے جو تعلق ہے اس کو نہ ہم جان سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔ زمین، آسمان، پہاڑ وغیرہ ہمارے لئے بےجان، گونگے اور بہرے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لئے بھی وہ ایسے ہی ہوں۔ اللہ تعالیٰ اپنی ہر مخلوق سے بات کرسکتا ہے اور وہ اسے جواب دے سکتی ہے۔ اس کیفیت کا سمجھنا ہمارے فہم و عقل سے بالاتر ہے۔ [64] '' ظلوم و جہول '' ظالم و جاہل کا مبالغہ ہے۔ ظالم و جاہل وہ کہلاتا ہے جو عدل اور علم سے خالی ہو مگر استعداد و صلاحیت ان صفات کے حصول کی رکھتا ہو۔ انسان کو '' ظلوم و جہول '' کہنے سے مراد یہ ہے کہ نوع انسانی کی اکثریت ظلوم و جہول ثابت ہوئی جس نے اس امانت کا حق ادا نہ کیا اور خسارے میں پڑی۔ مراد اس سے کفار و منافقین اور فساق و فجار اور گنہگار مسلمان ہیں۔ یعنی انسان کے اس بار امانت کے اٹھانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طبقہ مشرکین و منافقین کا قرار پایا اور ایک دوسرا طبقہ اہل ایمان کا۔ یعنی ایک اہل جہنم کا اور ایک اہل جنت کا۔
Top