Tafseer-al-Kitaab - Az-Zumar : 45
وَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ١ۚ وَ اِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ
وَاِذَا : اور جب ذُكِرَ اللّٰهُ : ذکر کیا جاتا ہے اللہ وَحْدَهُ : ایک۔ واحد اشْمَاَزَّتْ : متنفر ہوجاتے ہیں قُلُوْبُ : دل الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِالْاٰخِرَةِ ۚ : آخرت پر وَاِذَا : اور جب ذُكِرَ : ذکر کیا جاتا ہے الَّذِيْنَ : ان کا جو مِنْ دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اِذَا : تو فورا هُمْ : وہ يَسْتَبْشِرُوْنَ : خوش ہوجاتے ہیں
اور (دیکھو، ) جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جب اللہ کے سوا دوسروں کا ذکر آتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کھل اٹھتے ہیں۔
[31] یہ شرک و سفارش کے وجود میں آنے کے ایک بہت بڑے سبب کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ آخرت اللہ تعالیٰ کے عدل کامل اور جزاوسزا کے ظہور کا دن ہے اور اس کے ماننے سے انسان پر نہایت بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اس وجہ سے جو لوگ ان ذمہ داریوں سے گریز اختیار کرنا چاہتے ہیں وہ شرک و سفارش کی آڑ لیتے ہیں۔ وہ ایمان و عمل کے تقاضے پورے کرنے کا نہ حوصلہ رکھتے ہیں نہ اپنے نفس کی خواہشوں پر کوئی پابندی ہی قبول کرنے کو تیار ہیں، لہذا اول تو وہ آخرت کو مانتے ہی نہیں اور اگر مانتے بھی ہیں تو شرک و سفارش کا عقیدہ ایجاد کر کے آخرت کے تمام خطرات سے اپنے زعم کے مطابق وہ اپنے آپ کو محفوظ کرلیتے ہیں۔ اسی وجہ سے اگر ان کے سامنے توحید کا ذکر آئے تو ان کے دل کڑھنے لگتے ہیں اس لئے کہ آخرت اپنی پوری ہولناکی کے ساتھ ان کے سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔ البتہ جب ان کے مزعومہ شرکاء و شفعاء کا ذکر ہو تب وہ اطمینان کا سانس لیتے ہیں اس لئے کہ ان کو آخرت سے بےقید زندگی گزارنے کا لائسنس مل جاتا ہے۔ افسوس کہ یہی حال آج بہت سے نام نہاد مسلمانوں کا دیکھا جاتا ہے کہ اگر اللہ واحد کی قدرت و عظمت اور اس کے علم کی لامحدود و وسعت کا بیان ہو تو ان کے چہروں پر انقباض کے آثار ظاہر ہوتے ہیں مگر کسی پیر فقیر کا ذکر آجائے اور جھوٹی سچی کرامات اناپ شناپ بیان کردی جائیں تو ان کے چہرے کھل پڑتے ہیں۔ بلکہ بسا اوقات توحید خالص بیان کرنے والا ان کے نزدیک منکر اولیا سمجھا جاتا ہے۔
Top