Tafseer-al-Kitaab - Al-Ghaafir : 60
وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠   ۧ
وَقَالَ : اور کہا رَبُّكُمُ : تمہارے رب نے ادْعُوْنِيْٓ : تم دعا کرو مجھ سے اَسْتَجِبْ : میں قبول کروں گا لَكُمْ ۭ : تمہاری اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يَسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر کرتے ہیں عَنْ عِبَادَتِيْ : میری عبادت سے سَيَدْخُلُوْنَ : عنقریب وہ داخل ہوں گے جَهَنَّمَ : جہنم دٰخِرِيْنَ : خوار ہوکر
(لوگو، ) تمہارا رب فرماتا ہے کہ ہمیں پکارو، ہم تمہاری (دعا) قبول کریں گے، (اور) جو لوگ (مارے غرور کے) ہماری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں وہ عنقریب (ذلیل و) خوار ہو کر جہنم میں داخل ہونگے۔
[21] اس آیت میں تین باتیں قابل توجہ ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کو جو کچھ مانگنا ہے وہ اللہ ہی سے مانگے اور اس کے سوا کسی کو نہ پکارے۔ دوسرے یہ کہ دعا قبول کرنے کے کل اختیارات اللہ ہی کے پاس ہیں۔ اگر اس سے خلوص نیت کے ساتھ دعا مانگی جائے تو وہ قبول فرماتا ہے بشرطیکہ وہ گناہ کے لئے نہ ہو۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ دعا قبول ہونے کی تین صورتیں ہیں یا تو دعا اس دنیا میں قبول کرلی جاتی ہے، یا اسے آخرت میں اجر دینے کے لئے محفوظ رکھ لیا جاتا ہے یا اس درجے کی کسی آفت کو اس پر آنے سے روک دیا جاتا ہے۔ تیسری بات جو قابل غور ہے وہ یہ کہ پہلے فقرے میں جس چیز کو دعا سے تعبیر کیا گیا تھا اسی کو دوسرے فقرے میں عبادت فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعا عین عبادت ہے اور اللہ سے دعا مانگنا عین تقاضائے بندگی ہے اور اس سے منہ موڑنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی تکبر میں مبتلا ہے اور اپنی بندگی کا اقرار کرنے سے کتراتا ہے۔
Top