Tafseer-al-Kitaab - Az-Zukhruf : 46
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے مُوْسٰى : موسیٰ کو بِاٰيٰتِنَآ : ساتھ اپنی نشانیوں کے اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون کے وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سرداروں کے فَقَالَ : تو اس نے کہا اِنِّىْ رَسُوْلُ : بیشک میں رسول ہوں رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : رب العالمین کا
اور (دیکھو، ) ہم ہی نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا تھا۔ (موسیٰ نے ان لوگوں سے) کہا کہ میں رب العالمین کی طرف سے پیغمبر (ہو کر آیا) ہوں۔
[22] یہاں سے موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی سرگزشت شروع ہوتی ہے جس سے مقصود ایک تو اس انتقام الہٰی کی تاریخی شہادت پیش کرنا ہے اور جس کا ذکر آیات 42-41 میں ہوا ہے کہ رسول کی تکذیب کرنے والوں کا فیصلہ لازماً ہوجاتا ہے خواہ رسول کی زندگی میں ہو یا اس کی وفات یا ہجرت کے بعد۔ دوسرے یہ کہ فرعون نے بھی اپنی بادشاہی اور حشمت و دولت پر گھمنڈ کرتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) کو اسی طرح حقیر سمجھا تھا جس طرح سرداران قریش اپنے مقابلے میں نبی ﷺ کو سمجھ رہے تھے۔ تیسرے یہ اس حقیقت کی مثال ہے جو آیت 04 میں بیان ہوئی ہے کہ جو لوگ جان بوجھ کر گمراہی اختیار کرلیتے ہیں ان کو کسی نشانی سے بھی ہدایت حاصل نہیں ہوتی۔ وہ بڑے سے بڑا معجزہ دیکھنے کے بعد بھی اندھے ہی بنے رہتے ہیں۔ [23] ان نشانیوں سے مراد وہ معجزے ہیں جنہیں لے کر موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے پاس گئے تھے یعنی لاٹھی کا سانپ بن جانا اور ہاتھ کا چمکنا۔ ان کا بیان سورة اعراف اور سورة طہ میں گزر چکا ہے۔
Top