Tafseer-al-Kitaab - Az-Zukhruf : 60
وَ لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَّلٰٓئِكَةً فِی الْاَرْضِ یَخْلُفُوْنَ
وَلَوْ نَشَآءُ : اور اگر ہم چاہیں لَجَعَلْنَا : البتہ ہم بنادیں مِنْكُمْ : تم سے مَّلٰٓئِكَةً : فرشتوں کو فِي : میں الْاَرْضِ : زمین (میں) يَخْلُفُوْنَ : وہ جانشنین ہوں
اور ہم چاہتے تو تم سے فرشتے پیدا کردیتے جو زمین میں تمہارے جانشین ہوتے
[27] روایات میں ہے کہ جب نبی ﷺ نے مشرکین کے سامنے سورة انبیاء کی یہ آیت پڑھی۔ ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ 98؀) 21 ۔ الأنبیاء :98) (تم اللہ کے سوا جن چیزوں کو پوجتے ہو وہ دوزخ کا ایندھن ہیں) تو اس پر ایک مشرک بول اٹھا کہ اس سے تو فرشتوں اور عیسیٰ کا جنہیں لوگ پوجتے ہیں دوزخی ہونا لازم آیا اور جب بتوں کے ساتھ فرشتے اور عیسیٰ بھی دوزخی ہوئے تو فی الحقیقت بت مزے میں رہے کیونکہ پتھر کو آگ سے کوئی تکلیف نہیں۔ اس بات پر مشرکین نے قہقہہ لگایا کہ بولو اس کا کیا جواب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب دیا کہ یہ تمہاری کٹ حجتی ہے اور واقعی ان کا یہ کہنا کٹ حجتی میں داخل تھا کیونکہ ماتعبدون میں لفظ ماذوی العقول کے واسطے نہیں بولا جاتا۔ یعنی اس آیت سے صرف بت مراد ہیں۔ رہے عیسیٰ (علیہ السلام) تو وہ اللہ کے ایک بندے ہیں جن کو مثل اور پیغمبروں کے اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز فرمایا تھا اور عام توالد و تناسل کے قاعدے سے فرشتوں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا پیدا نہ ہونا اللہ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں۔ وہ چاہے تو انسانوں سے فرشتے پیدا ہونے لگیں۔
Top