Tafseer-al-Kitaab - Al-Fath : 26
اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاهِلِیَّةِ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَ كَانُوْۤا اَحَقَّ بِهَا وَ اَهْلَهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠   ۧ
اِذْ جَعَلَ : جب کی الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا فِيْ قُلُوْبِهِمُ : اپنے دلوں میں الْحَمِيَّةَ : ضد حَمِيَّةَ : ضد الْجَاهِلِيَّةِ : زمانۂ جاہلیت فَاَنْزَلَ اللّٰهُ : تو اللہ نے اتاری سَكِيْنَتَهٗ : اپنی تسلی عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسول پر وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ : اور مومنوں پر وَاَلْزَمَهُمْ : اور ان پر لازم فرمادیا كَلِمَةَ : بات التَّقْوٰى : تقوی کی وَكَانُوْٓا : اور وہ تھے اَحَقَّ بِهَا : زیادہ حقدار اس کے وَاَهْلَهَا ۭ : اور اس کے اہل وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کو عَلِيْمًا : جاننے والا
(یہی وجہ ہے کہ) جب ان کافروں نے اپنے دلوں میں عصبیت بٹھا لی (اور وہ بھی) جاہلیت کی عصبیت، تو اللہ نے اپنے رسول پر سکینت نازل فرمائی اور مسلمانوں کو تقویٰ کی بات پر جمائے رکھا کہ وہی اس کے حق دار اور اس کے اہل بھی تھے۔ اور اللہ تو ہر شے کا علم رکھتا ہے۔
[23] جاہلیت کی عصبیت سے اشارہ قریش کے لیڈروں کی ان حرکتوں پر ہے جو انہوں نے صلح نامہ مرتب ہوتے وقت کیں، مثلاً معاہدے پر بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ لکھی جائے، معاہدے میں محمد رسول اللہ ﷺ کے بجائے صرف محمد بن عبداللہ لکھا جائے، وغیرہ۔ رسول اکرم ﷺ اس قسم کے سارے مطالبات منظور فرماتے چلے گئے۔ [24] اس سکینت الٰہی کا یہ اثر ہوا کہ مسلمان جوش میں آ کر لڑ نہیں بیٹھے ورنہ مشرکین کی اشتعال انگیزی کا تقاضا تو یہی تھا۔ [25] یہاں تقویٰ کی بات رسول کی اطاعت تھی اور یہ اسی کا مقتضا تھا جس سے پرجوش مسلمانوں نے اپنے کو قابو میں رکھا۔
Top