Tafseer-al-Kitaab - Al-Fath : 28
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَرْسَلَ : بھیجا رَسُوْلَهٗ : اپنا رسول بِالْهُدٰى : ہدایت کے ساتھ وَدِيْنِ الْحَقِّ : اور دین حق لِيُظْهِرَهٗ : تاکہ اسے غالب کردے عَلَي الدِّيْنِ : دین پر كُلِّهٖ ۭ : تمام وَكَفٰى : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
وہ ( اللہ) ہی (تو) ہے جس نے اپنے رسول (محمد ﷺ کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کر دے اور (اس حقیقت پر) اللہ کی گواہی کافی ہے۔
[30] یہاں یہ بات ارشاد فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ معاہدہ حدیبیہ لکھتے وقت کفار نے رسول اللہ ﷺ کے اسم مبارک کے ساتھ رسول اللہ لکھنے پر اعتراض کیا تھا جیسا کہ حاشیہ 23 میں گزر چکا ہے۔ اس پر فرمایا گیا ہے کہ آپ کا رسول ہونا تو ایک حقیقت ہے جس پر اللہ کی گواہی کافی ہے، اس ایک صلح نامے پر اس کے درج نہ ہونے سے کیا ہوتا ہے اور اللہ کی گواہی کا ظہور دنیا میں یوں ہوا کہ اللہ نے آپ کی رسالت پر دلائل قوی قائم کر دئیے، بلحاظ اعجاز قرآنی بھی اور بلحاظ آپ کے دوسرے کمالات اعجازی کے بھی۔
Top