Tafseer-al-Kitaab - Adh-Dhaariyat : 47
وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان بَنَيْنٰهَا : بنایا ہم نے اس کو بِاَيْىدٍ : اپنی قوت۔ ہاتھ سے وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ : اور بیشک ہم البتہ وسعت دینے والے ہیں
اور (دیکھو، ) آسمان کو ہم نے اپنے دست (قدرت) سے بنایا ہے اور ہم (بڑی) وسیع قدرت رکھتے ہیں
[21] اس آیت کا ایک ترجمہ تو وہ ہوسکتا ہے جو ہم نے اختیار کیا ہے۔ اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جو ہستی اس عظیم الشان کائنات کو وجود میں لاسکتی ہے، اس کے لئے انسان کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرنا کیا مشکل ہے۔ آیت کا دوسرا ترجمہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنے دست قدرت سے بنایا ہے اور ہم اس میں توسیع کر رہے ہیں۔ آج سے چودہ سو سال پہلے جب عربوں کے پاس فلک بینی کا کوئی آلہ موجود نہ تھا قرآن نے ایک ایسی بات کہہ دی جس کی تصدیق 1948 ء میں تمام ستارہ شناسوں نے متفقہ طور پر کردی اور اعلان کیا کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ یہ قرآن کے منجانب اللہ ہونے کی ایک اور دلیل ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو ہستی کائنات میں مسلسل توسیع کر رہی ہے وہ اعادہ خلق سے کیونکر عاجز ہوسکتی ہے۔
Top