Tafseer-al-Kitaab - At-Tur : 7
اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌۙ
اِنَّ عَذَابَ : بیشک عذاب رَبِّكَ : تیرے رب کا لَوَاقِعٌ : البتہ واقع ہونے والا ہے
کہ تمہارے رب کا عذاب ضرور واقع ہو کر رہے گا۔
[6] رب کے عذاب سے مراد آخرت ہے کیونکہ کافروں کے لئے اس کا آنا عذاب ہی ہے۔ [7] یعنی وہ پانچ چیزیں جن کی اوپر قسم کھائی گئی ہے اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آخرت واقع ہو کر رہے گی اور ہر انسان کو اس کے اعمال کی جزا یا سزا دی جائے گی۔ (الف) طور وہ جگہ ہے جہاں ایک دبی اور پسی ہوئی قوم بنی اسرائیل کے اٹھائے جانے اور فرعون جیسے زبردست فرمانروا کا اپنے لشکر سمیت غرق کر دئیے جانے کا فیصلہ ایک سنسان رات میں کیا گیا تھا (ملاحظہ ہو سورة طہٰ آیات 9 تا 42 صفحہ 718، 720 اور حاشیہ 3 صفحہ 6 73 انسانی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں اللہ کا قانون مکافات برابر کام کرتا رہا ہے جس میں نیکو کاروں کے لئے انعام اور ظالموں کے لئے سزا کی مثالیں مسلسل پائی جاتی ہیں۔ یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ دنیا کی اس زندگی میں بھی انسان کے ساتھ اس کے خالق کا معاملہ صرف قوانین طبیعی (Physical Laws) پر مبنی نہیں ہے بلکہ اخلاقی قانون (Moral Laws) بھی اس کے ساتھ کارفرما ہے اور جب سلطنت کائنات کا مزاج یہ ہے کہ جس مخلوق کو اخلاقی اعمال کا موقع دیا گیا ہو اس کے ساتھ حیوانات و نباتات کی طرح محض طبیعی قوانین پر معاملہ نہ کیا جائے بلکہ اس کے اخلاقی اعمال پر اخلاقی قانون بھی نافذ کیا جائے تو یہ بات بجائے خود اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس سلطنت میں ایک ایسا وقت ضرور آنا چاہئے جب اس طبیعی دنیا میں انسان کا کام ختم ہوجائے اور خالص اخلاقی قانون کے مطابق اس کے اخلاقی اعمال کے نتائج پوری طرح ظاہر ہوں کیونکہ اس طبیعی دنیا میں وہ مکمل طور پر برآمد نہیں ہوسکتے۔ دنیا میں بہت سے نیک اور ایماندار آدمی قسم قسم کے آفات و مصائب میں مبتلا رہتے ہیں اور کتنے ہی بدمعاش اور بدکردار مزے کرتے ہیں۔ لہذا ماننا پڑے گا کہ موت کے بعد دوسری زندگی ہو جس میں ہر نیک وبد کو اس کے برے بھلے کام کا بدلہ مل سکے، یہی زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ (ب) کتب مقدسہ کے مجموعے کی قسم اس لئے کھائی گئی ہے کہ دنیا میں جتنے بھی انبیاء آئے ہیں اور جو کتابیں بھی وہ لائے ہیں ان سب نے ہر زمانے میں یہی خبر دی ہے جو محمد ﷺ دے رہے ہیں، یعنی یہ کہ تمام انسانوں کو ایک دن ازسرنو زندہ ہو کر اپنے خالق کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کے مطابق جزأ یا سزا پانی ہے۔ کوئی کتاب آسمانی کبھی ایسی نہیں آئی جو اس خبر سے خالی ہو۔ (ج) آباد گھر کی قسم اس لئے کھائی گئی ہے کہ ایک شخص اس سنسان جگہ پر اللہ کی عبادت کے لئے ایک گھر بناتا ہے اور لوگوں کو پکارتا ہے کہ لوگو آؤ اور اس گھر کا حج کرو۔ اس تعمیر اور اس پکار کو یہ حیرت انگیز مقبولیت حاصل ہوتی ہے کہ وہی گھر تمام اہل عرب کا مرکز بن جاتا ہے اس پکار پر عرب کے گوشے گوشے سے لوگ لبیک لبیک کہتے ہوئے کھچے چلے آتے ہیں۔ ڈھائی ہزار برس تک یہ گھر امن کا ایسا گہوارا بنا رہتا ہے کہ اس کے گردوپیش سارے ملک میں کشت و خون کا بازار گرم ہوتا ہے لیکن اس کے حدود میں آکر کسی کو کسی پر ہاتھ اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی۔ اسی گھر کی بدولت عرب کو ہر سال چار مہینے ایسے امن کے میسر آجاتے ہیں جن میں قافلے اطمینان سے سفر کرتے ہیں، تجارت چمکتی ہے اور بازار لگتے ہیں، پھر اس گھر کا یہ دبدبہ تھا کہ اس پوری مدت میں بڑے سے بڑا جبار بھی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکا اور جس نے یہ جرأت کی وہ اللہ کے غضب کا ایسا شکار ہوا کہ عبرت بن کر رہ گیا۔ یہ کرشمہ ان آیات کے نزول سے صرف 54 برس پہلے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے اور اس کے دیکھنے والے اس وقت مکہ معظمہ میں موجود تھے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سورة فیل حاشیہ 2۔ (د) اونچی چھت سے مراد وہ پورا عالم ہے جسے انسان شب و روز اپنے اوپر چھایا ہوا دیکھتا ہے جس میں دن کو سورج چمکتا ہے اور رات کو چاند اور بیحد و حساب تارے روشن نظر آتے ہیں دوربین کے ذریعہ ایک ایسی وسیع و عریض کائنات دکھائی دیتی ہے جو ناپیدا کنار ہے، کہیں سے شروع ہو کر کہیں ختم ہوتی نظر نہیں آتی، زمین سے لاکھوں گنا بڑے سیارے اس کے اندر گیندوں کی طرح گھوم رہے ہیں۔ پورا نظام شمسی اس کی صرف ایک کہکشاں کے ایک کونے میں پڑا ہوا ہے اور اب تک کا انسانی مشاہدہ ایسی ایسی دس لاکھ کہکشاؤں کا پتہ دے رہا ہے۔ اس عظیم الشان کائنات کو جو اللہ وجود میں لایا ہے اسی کے بارے میں یہ چھوٹا سا حیوان ناطق جس کا نام انسان ہے اگر یہ حکم لگائے کہ وہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا یہ اس کی اپنی ہی عقل کی تنگی ہے۔ (ہ) موجزن سمندر کی قسم اس لئے کھائی گئی ہے کہ یہ اللہ کی قدرت اور اس کی حکمت پر دلالت کرتا ہے۔ زمین پر پانی کے اتنے بڑے ذخیرے کا فراہم ہوجانا بجائے خود ایک ایسی کاریگری ہے جو کسی اتفاقی حادثہ کا نتیجہ نہیں ہوسکتی۔ پھر اس میں بیحد وحساب حیوانات پیدا کئے گئے ہیں۔ اس کے پانی کو نمکین بنادیا گیا ہے تاکہ روزانہ کروڑوں جانور جو اس میں مرتے ہیں، ان کی لاشیں سڑ نہ جائیں۔ جس قادر مطلق کی قدرت کا کرشمہ اس عظیم الشان سمندر کی تخلیق ہے جس نے فضا میں گھومنے والے اس معلق کُرّے پر پانی کے اتنے بڑے ذخیرے کو تھام رکھا ہے جو ہر سال اربوں من پانی اس میں سے اٹھا کر ہوا کے دوش پر لے جاتا ہے اور کروڑوں مربع میل کے خشک علاقوں پر اسے بڑی باقاعدگی کے ساتھ برساتا ہے وہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا ؟
Top