Tafseer-al-Kitaab - Ar-Rahmaan : 77
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ : تو ساتھ کون سی نعمتوں کے رَبِّكُمَا : اپنے رب کی تم دونوں تُكَذِّبٰنِ : تم دونوں جھٹلاؤ گے
تو (اے جن و انس، ) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟
[16] اگرچہ یہ دو باغ اپنی خصوصیات کے اعتبار سے پہلے دو باغوں کے ساتھ فی الجملہ اشتراک رکھتے ہیں لیکن ان کا درجے میں فروتر ہونا صاف ظاہر ہے۔ مثلاً پہلے دو باغ کی حوروں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ ایسی خوبصورت ہوں گی جیسے ہیرے اور موتی لیکن ان دو باغوں کی حوروں کے بارے میں صرف خوبصورت کہنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ اس طرح پہلے دو باغوں کے پھلوں کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ ان میں ہر طرح کے پھلوں کی دو قسمیں ہوں گی۔ لیکن ان دو باغوں کے لئے من کل فاکھۃ کی بجائے صرف فاکھۃ فرمایا گیا ہے۔ وضاحت سورة رحمن کے تیسرے رکوع میں دو دو جنتوں کے جن جوڑوں کا ذکر ہے ان کے بارے میں یہ رائے تو مشہور اور معروف ہے کہ ان میں سے ایک جوڑا اصحاب الیمین کے لئے ہے اور دوسرا مقربین کے لئے جس کا ذکر صراحت کے ساتھ اگلی سورت یعنی سورة واقعہ میں موجود ہے۔ رہا ان دونوں قسم کے جنتیوں کے بارے میں دو دو جنتیوں کا ذکر تو اس کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں میں سے ایک جنت انسانوں کے لئے ہوگی اور دوسری جنات کے لئے۔ کیونکہ جب جنات اور انسانوں کا مادہ تخلیق جدا جدا ہے یعنی جنات کا آگ اور انسانوں کا خاک تو لازماً ان کی جسیَّات اور میلانات میں بھی فرق ہوگا لہذا ان دونوں کے لئے جنّتی نعمتیں خواہ صورت شکل میں ایک جیسی ہوں لیکن ان کے مزاجوں کی مناسبت سے جدا جدا ہونا ضروری ہیں۔ یہ صراحت اس لئے کردی گئی ہے کہ سورة رحمن قرآن حکیم کی وہ واحد سورت ہے جس میں جنوں اور انسانوں سے خطاب بالکل متوازی اور پیہم اور براہ راست ہے۔ چناچہ اکتیس بار تو ان دونوں سے مشترک خطاب آیت ترجیع ( فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ 13 ؀) 55 ۔ الرحمن :13) ہی میں ہوا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top