Tafseer-al-Kitaab - Al-An'aam : 78
فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّیْ هٰذَاۤ اَكْبَرُ١ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب رَاَ : اس نے دیکھا الشَّمْسَ : سورج بَازِغَةً : جگمگاتا ہوا قَالَ : بولے هٰذَا : یہ رَبِّيْ : میرا رب هٰذَآ : یہ اَكْبَرُ : سب سے بڑا فَلَمَّآ : پھر جب اَفَلَتْ : وہ غائب ہوگیا قَالَ : کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اِنِّىْ : بیشک میں بَرِيْٓءٌ : بیزار مِّمَّا : اس سے جو تُشْرِكُوْنَ : تم شرک کرتے ہو
پھر جب سورج کو چمکتے ہوئے دیکھا تو بولا یہ ہے میرا رب، کہ یہ (سب سے) بڑا (بھی) ہے مگر جب وہ بھی ڈوب گیا تو اس نے (اپنی قوم سے مخاطب ہو کر) کہا، اے میری قوم (کے لوگو، ) میں اس شرک سے بیزار ہوں جو تم کیا کرتے ہو۔
[27] ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کواکب پرستی میں مبتلا تھی۔ چناچہ آپ نے یہ باتیں اپنی قوم کو پہلے ستارہ پھر چاند اور سورج دکھا کر اور سنا کر ان پر حجت قائم کرنے کے لئے کہیں۔ مخالف پر حجت قائم کرنا تبلیغ و مناظرہ کے معمولات میں سے ہے اور ہر زبان میں یہ اسلوب عام ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ سورج، چاند اور ستاروں کا غروب ہونا اللہ کی شان کے خلاف ہے کیونکہ وہ مجبور معلوم ہوتے ہیں اور کسی دوسرے کے ارادے کے محکوم۔ اور جب مجبور و محکوم ہیں تو اِلٰہ نہیں ہوسکتے۔
Top