Tafseer-al-Kitaab - At-Taghaabun : 7
زَعَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا١ؕ قُلْ بَلٰى وَ رَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ١ؕ وَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ
زَعَمَ : دعوی کیا الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا اَنْ لَّنْ : کہ ہرگز نہ يُّبْعَثُوْا : اٹھائے جائیں گے قُلْ : کہہ دیجئے بَلٰى وَرَبِّيْ : کیوں نہیں ، میرے رب کی قسم لَتُبْعَثُنَّ : البتہ تم ضرور اٹھائے جاؤ گے ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ : پھر البتہ تم ضرور بتائے جاؤ گے بِمَا عَمِلْتُمْ : ساتھ اس کے جو تم نے عمل کیے وَذٰلِكَ : اور یہ بات عَلَي : پر اللّٰهِ يَسِيْرٌ : اللہ (پر) بہت آسان ہے
کافر (بڑے) دعوے سے کہتے ہیں کہ ان کو (زندہ کر کے دوبارہ) نہیں اٹھایا جائے گا۔ (اے پیغمبر، ان لوگوں سے) کہو کیوں نہیں، میرے رب کی قسم تم یقینا اٹھائے جاؤ گے پھر ضرور تمہیں بتادیا جائے گا کہ تم دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے اور یہ کام اللہ کے لئے (بہت) آسان ہے
[2] یہاں منکرین کے دعوے کا جواب بظاہر دعوے ہی سے دیا گیا ہے لیکن رب کی قسم میں دلیل کا ایک لطیف پہلو مضمر ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت جس کی شان اس کائنات کے ہر گوشے میں نمایاں ہے اس بات کو واجب کرتی ہے کہ وہ نیکوکار اور بدکار دونوں کے ساتھ ایک ہی طرح کا معاملہ نہیں کرے گا بلکہ لازماً وہ نیکوں کو ان کی نیکی کا صلہ دے گا اور بدوں کو بدی کی سزا۔ اس سے یہ بات بھی لازم آتی ہے کہ وہ لوگوں کو مرنے کے بعد اٹھائے، ان کا حساب کرے اور ان کے اعمال کے مطابق ان کو جزا یا سزا دے۔ علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ کے مخاطب وہ لوگ تھے جو اپنے علم و تجربے کی بناء پر یہ بات جانتے تھے کہ آپ نے کبھی عمر بھر جھوٹ نہیں بولا اس لئے وہ یہ تصور تک نہیں کرسکتے تھے کہ ایسا سچا انسان کبھی قسم کھا کر یہ بات کہہ سکتا ہے جس کے برحق ہونے کا اسے علم و یقین نہ ہو۔
Top