Tafseer-al-Kitaab - Al-Insaan : 3
اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا
اِنَّا : بیشک ہم هَدَيْنٰهُ : ہم نے اسے دکھائی السَّبِيْلَ : راہ اِمَّا : خواہ شَاكِرًا : شکر کرنے والا وَّاِمَّا : اور خواہ كَفُوْرًا : ناشکرا
بیشک ہم نے اس کو راہ دکھا دی، (اب) خواہ وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔
[4] '' راہ دکھانے '' سے مراد رہنمائی کی کوئی ایک ہی صورت نہیں ہے بلکہ بہت سی صورتیں ہیں جن کی کوئی حدونہایت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر :۔ (ا) ہر انسان کو علم و عقل کی صلاحیتیں دینے کے ساتھ ایک اخلاقی حس بھی دی گئی ہے جس کی بدولت وہ فطری طور پر بھلائی اور برائی میں امتیاز کرتا ہے، بعض افعال اور اوصاف کو برا جانتا ہے اگرچہ وہ خود ان میں مبتلا ہو اور بعض افعال و اوصاف کو اچھا جانتا ہے اگرچہ وہ خود ان سے اجتناب کر رہا ہو۔ (ب) ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے ضمیر (نفس لوامہ) نام کی ایک چیز رکھ دی ہے جو اسے ہر اس موقع پر ٹوکتی ہے جب وہ کوئی برائی کرنے والا ہو یا کر رہا ہو یا کرچکا ہو۔ اس ضمیر کو انسان خواہ کتنی ہی تھپکیاں دے کر سلائے اور اس کو بےحس بنانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کرے لیکن وہ اسے بالکل فنا کردینے پر قادر نہیں ہے۔ وہ دنیا میں ڈھیٹ بن کر اپنے آپ کو قطعی بےضمیر ثابت کرسکتا ہے۔ (ج) انسان کے اپنے وجود میں اور اس کے گردوپیش زمین سے لے کر آسمان تک ساری کائنات میں ہر طرف ایسی بیشمار نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جو خبر دے رہی ہیں کہ یہ سب کچھ اللہ کے بغیر نہیں ہوسکتا نہ بہت سے اللہ اس کارخانہ ہستی کو بنانے والے اور چلانے والے ہوسکتے ہیں۔ (د) انسان کی اپنی زندگی میں، اس کی ہم عصر دنیا میں اور اس سے پہلے گزری ہوئی تاریخ کے تجربات میں بیشمار واقعات ایسے پیش آتے ہیں اور آتے رہے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ایک بالاتر حکومت اس پر اور ساری کائنات پر فرماں روائی کر رہی ہے، جس کے آگے وہ بالکل بےبس ہے، جس کی مشیت ہر چیز پر غالب ہے اور جس کی مدد کا وہ محتاج ہے۔ (ر) انسان کی عقل اور اس کی فطرت قطعی طور پر حکم لگاتی ہے کہ جرم کی سزا اور عمدہ خدمات کا صلہ ملنا ضروری ہے۔ اس بناء پر دنیا کے ہر معاشرے میں عدالت کا نظام کسی نہ کسی صورت میں قائم کیا جاتا ہے۔ اب اگر یہ مسلّم ہے کہ اس دنیا میں بیشمار جرائم ایسے ہیں جن کی پوری سزا تو درکنار سرے سے کوئی سزا ہی نہیں دی جاسکتی اور بیشمار خدمات بھی ایسی ہیں جن کا پورا صلہ تو کیا کوئی صلہ بھی خدمت کرنے والے کو نہیں مل سکتا تو آخرت کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ (س) ان تمام ذرائع رہنمائی کی مدد کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کی صریح اور واضح رہنمائی کے لئے دنیا میں انبیاء بھیجے اور کتابیں نازل کیں جن میں صاف صاف بتادیا گیا کہ شکر کی راہ کون سی ہے اور کفر کی راہ کون سی ہے اور ان دونوں راہوں پر چلنے کے نتائج کیا ہیں۔ انبیاء اور کتابوں کی لائی ہوئی یہ تعلیمات، بیشمار محسوس اور غیر محسوس طریقوں سے اتنے بڑے پیمانے پر ساری دنیا میں پھیلی ہیں کہ کوئی انسانی آبادی بھی اللہ کے تصور، آخرت کے تصور، نیکی اور بدی کے فرق اور ان کے پیش کردہ اخلاقی اصولوں اور قانونی احکام سے ناواقف نہیں رہ گئی، خواہ اسے یہ معلوم ہو یا نہ ہو کہ یہ علم اسے انبیاء اور کتابوں کی لائی ہوئی تعلیمات ہی سے حاصل ہوا ہے۔ [5] یعنی نیکی اور بدی کا امتیاز دے کر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار دیا کہ چاہے نیکی کی راہ اختیار کرے چاہے بدی کی راہ پر چلے اگر نیکی کی راہ اختیار کرے گا تو وہ اپنے رب کا شکرگزار بندہ بنے گا اور اس کا انعام پائے گا اور اگر بدی کی راہ اپنائے گا تو ناشکرا بنے گا اور اس کی سزا بھگتے گا جیسے کہ آگے مذکور ہے۔
Top