Tafseer-al-Kitaab - Al-Anfaal : 53
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّ : اس لیے کہ اللّٰهَ : اللہ لَمْ يَكُ : نہیں ہے مُغَيِّرًا : بدلنے والا نِّعْمَةً : کوئی نعمت اَنْعَمَهَا : اسے دی عَلٰي قَوْمٍ : کسی قوم کو حَتّٰي : جب تک يُغَيِّرُوْا : وہ بدلیں مَا : جو بِاَنْفُسِهِمْ : ان کے دلوں میں وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
یہ بات اس لئے ہوئی (کہ اللہ کا مقررہ قانون ہے) کہ جو نعمت وہ کسی قوم کو عطا فرماتا ہے اسے اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک خود اس قوم کے افراد اپنی حالت نہ بدل لیں۔ بیشک اللہ (سب کچھ) سننے والا (اور) جاننے والا ہے۔
[17] یعنی جس قوم کو اللہ تعالیٰ نعمتوں سے سرفراز فرماتا ہے اس سے وہ اس وقت تک واپس نہیں لیتا جب تک وہ اپنے حالات و اعمال کو بدل کر خود ہی اللہ کے عذاب کو دعوت نہ دے۔ حالات اور اعمال کے بدلنے سے مراد یہ ہے کہ اچھے اعمال اور اچھے حالات کو بدل کر برے اعمال اور برے حالات اختیار کرے یا یہ کہ اللہ کی نعمتیں پانے کے وقت جن اعمال بد اور گناہوں میں مبتلا تھی ان سے زیادہ برے اعمال میں مبتلا ہوجائے۔
Top