Tafseer-al-Kitaab - At-Tawba : 100
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ١ۙ رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
وَالسّٰبِقُوْنَ : اور سبقت کرنے والے الْاَوَّلُوْنَ : سب سے پہلے مِنَ : سے الْمُهٰجِرِيْنَ : مہاجرین وَالْاَنْصَارِ : اور انصار وَالَّذِيْنَ : اور جن لوگوں اتَّبَعُوْھُمْ : ان کی پیروی کی بِاِحْسَانٍ : نیکی کے ساتھ رَّضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنْھُمْ : ان سے وَرَضُوْا : وہ راضی ہوئے عَنْهُ : اس سے وَاَعَدَّ : اور تیار کیا اس نے لَھُمْ : ان کے لیے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں تَحْتَهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَآ : ان میں اَبَدًا : ہمیشہ ذٰلِكَ : یہ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ : کامیابی بڑی
اور وہ مہاجرین و انصار جنہوں نے (اسلام قبول کرنے میں) سبقت کی اور وہ لوگ (بھی) جنہوں نے نیک کرداری میں ان کی پیروی کی ' اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں جہاں وہ ہمیشہ (ہمیشہ) رہیں گے (اور) یہی بڑی کامیابی ہے۔
[52] نبوت کے تیرہویں سال رسول اللہ ﷺ کفار مکہ کی ایذا رسانیوں سے عاجز آ کر اللہ کے حکم سے مدینے چلے گئے۔ اس ترک وطن کا نام ہوا ہجرت۔ دوسرے مسلمان بھی رسول اللہ ﷺ کے آگے پیچھے مکہ سے ترک وطن کر کے مدینے میں جمع ہوتے گئے۔ یہ پردیسی مسلمان مہاجر کہلائے اور مدینے کے مسلمان جنہوں نے مہاجرین مکہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اسلام اور پیغمبر اسلام کی ہر طرح خدمت و نصرت کی انصار کہلائے۔ [53] اس میں امت مسلمہ کے سارے طبقات قیامت تک کے لئے آگئے۔ [54] سابقون الاولون کی تشریح اوپر گزر چکی ہے ( آیت 100) ان کی محبت ایمانی کا یہ حال تھا کہ انہوں نے راہ حق کی مصیبتیں صرف جھیلی ہی نہیں بلکہ دل کی پوری خوشحالی اور روح کے کامل سرور کے ساتھ اپنی پوری زندگیاں ان میں بسر کر ڈالیں۔ انہوں نے مال کی ہر قربانی اس جوش و مسرت کے ساتھ کی کہ گویا دنیا جہان کی خوشیاں اور راحتیں ان کے لئے فراہم ہوگئی ہیں، اور جان کی قربانیوں کا وقت آیا تو اس طرح خوش خوش گردنیں کٹوا دیں کہ گویا سب سے بڑی خوشی زندگی میں نہیں بلکہ موت میں تھی۔ جنگ احد میں سعد بن ربیع کو لوگوں نے دیکھا کہ زخمیوں میں پڑے دم توڑ رہے ہیں۔ پوچھا کہ کوئی وصیت کرنی ہو تو کردو۔ کہا اللہ کے رسول کو میرا سلام پہنچا دینا۔ عمار بن زیاد زخموں سے چور جاں کنی کی حالت میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے سرہانے پہنچ گئے اور فرمایا کہ کوئی آرزو ہو تو کہہ دو ۔ عمار نے اپنا زخمی جسم گھسیٹ کر آپ کے قریب کردیا اور اپنا سر آپ کے قدموں پر رکھ دیا کہ اگر کوئی آرزو ہوسکتی ہے تو صرف یہی ہے۔ عورتوں تک کا یہ حال تھا کہ بیک وقت انہیں ان کے شوہر، بھائی اور باپ کے شہید ہوجانے کی خبر پہنچائی جاتی تھی تو وہ یہ کہتی تھیں یہ تو ہوا مگر بتلاؤ اللہ کے رسول ﷺ کا کیا حال ہے ؟ تاریخ اسلام میں جنگ حنین پہلی جنگ ہے جس میں بکثرت مال غنیمت ہاتھ آیا۔ یہ وقت تھا کہ سابقوں الاولون کو مال و دولت سے حصہ وافر ملتا لیکن رسول اللہ ﷺ نے ان باشندگان مکہ کو ترجیح دی جو فتح مکہ کے وقت نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور انصار مدینہ کے حصہ میں کچھ نہ آیا کیونکہ آپ کے پیش نظر تو مسلمانوں کی تالیف قلب تھی۔ یہ حالت دیکھ کر بعض نوجوانوں کو خیال ہوا کہ اہل مکہ سے لڑے تو ہم لیکن آج مال غنیمت کا حصہ انہیں مل رہا ہے۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچی تو آپ نے انصار کو جمع کیا اور فرمایا : کیا تمہاری خوشنودی کے لئے یہ بات کافی نہیں کہ لوگ یہاں سے مال غنیمت کے حصے لے کر جائیں اور تم اللہ کے نبی کو اپنے ساتھ لے کر جاؤ ؟ انصار بےاختیار پکار اٹھے : رضینا یا رسول اللہ رضینا (ہم خوشنود ہیں یا رسول اللہ ہم خوشنود ہیں) بخاری و مسلم۔ پس رضو عنہ میں اشارہ اسی طرف ہے کہ کلمہ حق کی راہ جو کچھ بھی پیش آیا انہوں نے اسے جھیلا ہی نہیں بلکہ کمال محبت ایمانی کی وجہ سے اس میں خوش حال و خوشنود رہے اور یہی مقام ہے جو ان کے درجہ کو تمام مدارج ایمان و عمل میں ممتاز کردیتا ہے۔
Top