Tafseer-al-Kitaab - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
(مسلمانو ' ) صاف جواب ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں کو جن کے ساتھ تم نے (صلح و امن کا) معاہدہ کیا تھا۔
[1] اس سورت کو سورة برآء َۃ بھی کہا جاتا ہے، برآء َۃ اس لئے کہ اس میں کفار سے بری الذمہ ہونے کا اعلان ہے اور توبہ اس لئے کہ اس میں بعض مسلمانوں کی توبہ قبول ہونے کا بیان ہے۔ قرآن مجید کی صرف یہی ایک سورت ہے جس کے شروع میں بسم اللہ نہیں لکھی جاتی۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) اس سورت کے ساتھ بسم اللہ لے کر نازل نہیں ہوئے تھے۔ اس لئے نبی ﷺ نے بسم اللہ لکھنے کا حکم نہیں فرمایا۔ نیز سیدنا علی ؓ سے مروی ہے کہ بسم اللہ امان ہے اور سورت برآء َۃ میں کفار کے امان اور عہد و پیمان کو ختم کرنے کا بیان ہے جو بسم اللہ کے مناسب نہیں۔ [2] صلح حدیبیہ کی بنیادی شرط یہ تھی کہ دس برس تک دونوں فریق یعنی مسلمان اور مشرکین مکہ صلح و امن پر قائم رہیں گے لیکن ابھی اس معاہدے کو دو برس بھی نہیں گزرے تھے کہ مشرکین نے عہد شکنی کی۔ چناچہ انہیں نوٹس دیا جا رہا ہے کہ تم سے معاہدہ ختم، بس اب تلوار ہی تمہارا فیصلہ کرے گی۔
Top