Tafseer-al-Kitaab - At-Tawba : 38
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ١ؕ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ١ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) مَا لَكُمْ : تمہیں کیا ہوا اِذَا : جب قِيْلَ : کہا جاتا ہے لَكُمُ : تمہیں انْفِرُوْا : کوچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ اثَّاقَلْتُمْ : تم گرے جاتے ہو اِلَى : طرف (پر) الْاَرْضِ : زمین اَرَضِيْتُمْ : کیا تم نے پسند کرلیا بِالْحَيٰوةِ : زندگی کو الدُّنْيَا : دنیا مِنَ : سے (مقابلہ) الْاٰخِرَةِ : آخرت فَمَا : سو نہیں مَتَاعُ : سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت اِلَّا : مگر قَلِيْلٌ : تھوڑا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ' تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں (لڑنے کے لئے) نکلو تو تم زمین سے لگے جاتے ہو۔ کیا تم نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پسند کرلی ہے ؟ (اگر یہ بات ہے) تو (یہ تمہاری سخت غلط فہمی ہے کیونکہ) دنیوی زندگی کا سروسامان (متاع) آخرت کے مقابلے میں بہت ہی قلیل ہے۔
[24] یہاں سے سورت کے آخر تک غزوہ تبوک کے بارے میں بیان ہے۔ تبوک مدینے کے شمال میں سرحد شام پر ایک مقام کا نام ہے۔ شام اس وقت سلطنت روما کا ایک صوبہ تھا۔ نبی ﷺ جب غزوہ حنین سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ آئے تو آپ کو اطلاع ملی کہ رومی فوجیں تبوک میں جمع ہو رہی ہیں اور عنقریب مدینے پر حملہ کرنے والی ہیں۔ آپ نے خود ہی بڑھ کر مقابلہ کرنا چاہا چناچہ تیس ہزار کی جمعیت آپ کے ہمراہ روانہ ہوئی۔ تاہم ایک طرف مقابلہ کسی قبیلے سے نہیں باضابطہ مسلح شاہی فوج سے کرنا تھا، پھر موسم بھی شدید گرمی کا، فصل کے پکنے اور کٹنے کا بھی۔ جب اطلاع ملی کہ مسلمانوں نے پیش قدمی کی ہے تو ان کے حوصلے پست ہوگئے اور قیصر روم نے مسلمانوں سے مقابلے کا ارادہ ترک کردیا۔ تبوک میں قیام کے دوران آپ ﷺ نے چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو جو سلطنت روم اور مسلمانوں کے علاقوں کے درمیان تھیں سلطنت اسلامی کا باجگزار اور تابع کرلیا۔
Top