Tafseer-al-Kitaab - At-Tawba : 73
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی جَاهِدِ : جہاد کریں الْكُفَّارَ : کافر (جمع) وَالْمُنٰفِقِيْنَ : اور منافقین وَاغْلُظْ : اور سختی کریں عَلَيْهِمْ : ان پر وَمَاْوٰىهُمْ : اور ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم وَبِئْسَ : اور بری الْمَصِيْرُ : پلٹنے کی جگہ
اے پیغمبر ' کافروں اور منافقوں (دونوں) سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ (کہ وہ اس کے مستحق ہیں) اور بالآخر ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے !
[45] جہاد کے معنی ہیں کسی ناپسندیدہ چیز کے دفع کرنے میں انتہائی کوشش کرنا۔ یہ کوشش کبھی عطیات سے ہوتی ہے، کبھی زبان سے، کبھی قلم سے، کبھی کسی اور طریق سے۔ منافقین جو زبان سے اسلام کا اظہار کریں اور دل سے مسلمان نہ ہوں ان کے مقابلے میں تلوار سے جہاد جمہور علماء کے نزدیک جائز نہیں، نہ عہد نبوت میں ایسا ہوا اس لئے اس آیت میں ان کی نسبت ذرا سخت رویہ اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی۔ تبوک کے موقع پر جب منافقین نے کھلم کھلا عناد اور دشمنی کا انداز اختیار کیا تو رسول اللہ ﷺ کو حکم ہوا کہ آپ ان کے معاملے میں سختی اختیار کیجئے۔ یہ شریر خوش اخلاقی اور نرمی سے ماننے والے نہیں ہیں۔
Top