Taiseer-ul-Quran - Yunus : 91
آٰلْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ
آٰلْئٰنَ : کیا اب وَقَدْ عَصَيْتَ : اور البتہ تو نافرمانی کرتا رہا قَبْلُ : پہلے وَكُنْتَ : اور تو رہا مِنَ : سے الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
( فرمایا) اب (تو ایمان لاتا ہے) جبکہ 101 اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسد بنا رہا
101 فرعون کا غرقابی کے وقت ایمان لانا :۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے اس اقرار کے جواب میں فرمایا کہ جیسا اقرار تم اب کر رہے ہو ویسا اقرار پہلے بھی کئی دفعہ کرچکے ہو پھر بعد میں عہد شکنی کرکے بغاوت ہی کرتے رہے ہو لہذا تمہارا اب کا یہ اقرار قطعاً ناقابل اعتبار ہے اگر تمہیں اب بھی ہم نجات دے دیں تو پھر بھی تم وہی کچھ کرو گے جو پہلے کرتے رہے ہو اور اس مطلب پر دلیل درج ذیل حدیث ہے۔ سیدنا ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جب فرعون نے یہ کلمات کہے تھے تو جبریل نے مجھے کہا کہ : کاش اے محمد ! آپ دیکھتے میں نے اس وقت دریا سے کیچڑ لے کر فرعون کے منہ میں ٹھونس دیا کہ مبادا اب بھی کہیں اللہ کی رحمت اسے نہ آلے (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اب تمہارے اس اقرار کا کچھ فائدہ نہیں کیونکہ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ تمہاری موت آچکی اور امتحان اور توبہ کا وقت گذر چکا ہے لہذا اب ایسا اقرار بےکار ہے اس مطلب پر بھی بیشمار آیات و احادیث شاہد ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تین امور کا معین وقت کسی کو بھی نہیں بتلایا، ایک یہ کہ کسی قوم پر عذاب کب آئے گا، دوسرے یہ کہ کسی کی موت کا وقت کب ہے ؟ اور تیسرے یہ کہ قیامت کب آئے گی کیونکہ ان امور کا معین وقت بتلا دیا جائے تو دنیا کے دارالامتحان ہونے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے اور فرعون کے معاملہ میں تو دو باتیں اکٹھی ہوگئی تھیں۔ ایک عذاب دوسرے موت۔ لہذا اس وقت اس کا ایمان کیسے قبول ہوسکتا تھا ؟
Top