Taiseer-ul-Quran - Yunus : 94
فَاِنْ كُنْتَ فِیْ شَكٍّ مِّمَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ فَسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ لَقَدْ جَآءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَۙ
فَاِنْ : پس اگر كُنْتَ : تو ہے فِيْ شَكٍّ : میں شک میں مِّمَّآ : اس سے جو اَنْزَلْنَآ : ہم نے اتارا اِلَيْكَ : تیری طرف فَسْئَلِ : تو پوچھ لیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَقْرَءُوْنَ : پڑھتے ہیں الْكِتٰبَ : کتاب مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے لَقَدْ جَآءَكَ : تحقیق آگیا تیرے پاس الْحَقُّ : حق مِنْ : سے رَّبِّكَ : تیرا رب فَلَا تَكُوْنَنَّ : پس نہ ہونا مِنَ : سے الْمُمْتَرِيْنَ : شک کرنے والے
پھر اگر آپ کو اس کتاب کے بارے میں کچھ شک ہو جو ہم نے آپ کی طرف نازل 104 کی ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لیجئے جو آپ سے پہلے کتاب (تورات) پڑھتے ہیں۔ یقینا آپ کے پاس آپ کے پروردگار کی طرف سے حق آچکا ہے، لہذا آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں
104 شک کا علاج اہل علم سے تحقیق کرنا ہے :۔ بظاہر یہ خطاب رسول اللہ کی طرف ہے لیکن اس سے مراد دوسرے لوگ ہیں اور یہ خطاب محض تاکید مزید کی بنا پر ہے وجہ یہ ہے کہ ہر نبی منزل من اللہ وحی پر سب سے پہلے خود ایمان لاتا ہے پھر دوسروں کو دعوت دیتا ہے اور شک اور ایمان دو بالکل متضاد چیزیں ہیں۔ آپ بھلا اس بات میں کیسے شک کرسکتے تھے جس کی تمام دنیا کو دعوت دے رہے تھے اور سننے والوں کے دلوں میں بھی پہاڑ سے زیادہ مضبوط یقین پیدا کردیتے تھے اب اگر اللہ کی نازل کردہ وحی میں کسی شخص کو شک پیدا ہو کہ آیا یہ واقعی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے یا نہیں تو اس کا علاج یہ نہیں کہ وہ شک میں ہی پڑا رہے بلکہ یہ ہے کہ جن لوگوں پر سابقہ آسمانی کتابیں نازل ہوئی ہیں اور وہ ان کتابوں کو پڑھتے بھی ہیں۔ یعنی یہود و نصاریٰ ان سے پوچھ کر اپنا شک دور کرسکتا ہے۔ اگرچہ یہود و نصاریٰ کی اکثریت ایسی تھی جو آپ پر ایمان نہیں لائے تھے تاہم ان میں کچھ انصاف پسند لوگ بھی موجود تھے جن میں سے کچھ ایمان لے آئے اور بعض نے بعض دوسری وجوہ کی بنا پر قبول نہیں کیا تھا پھر چونکہ اصولی لحاظ سے سب آسمانی کتابوں کی تعلیم ملتی جلتی ہے لہذا اہل کتاب میں سے بھی منصف لوگ یہ شہادت دے دیتے تھے کہ فی الواقع یہ آسمانی کتاب ہے۔ اور آپ کے اور صحابہ کے شک نہ کرنے کا عملی ثبوت یہ ہے کہ آپ نے یا صحابہ نے کبھی اہل کتاب سے یہ بات نہ پوچھی۔
Top