Taiseer-ul-Quran - Yunus : 98
فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ١ؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ
فَلَوْلَا : پس کیوں نہ كَانَتْ : ہوتی قَرْيَةٌ : کوئی بستی اٰمَنَتْ : کہ وہ ایمان لاتی فَنَفَعَهَآ : تو نفع دیتا اس کو اِيْمَانُهَآ : اس کا ایمان اِلَّا : مگر قَوْمَ يُوْنُسَ : قوم یونس لَمَّآ : جب اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے كَشَفْنَا : ہم نے اٹھا لیا عَنْھُمْ : ان سے عَذَابَ : عذاب الْخِزْيِ : رسوائی فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَمَتَّعْنٰھُمْ : اور نفع پہنچایا انہیں اِلٰى حِيْنٍ : ایک مدت تک
پھر کیا یونس کی قوم کے سوا کوئی ایسی مثال ہے کہ کوئی قوم (عذاب دیکھ کر) ایمان لائے تو اس کا ایمان اسے فائدہ دے ؟ جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں ان سے رسوائی کا عذاب دور کردیا 106 اور ایک مدت تک انھیں سامان زیست سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا
106 سیدنایونس کا مرکز تبلیغ نینوا :۔ سیدنا یونس (علیہ السلام) کا ذکر یہاں پہلی دفعہ آیا ہے اور غالباً اسی وجہ سے اس سورة کا نام سورة یونس ہے البتہ آگے تین مقامات پر بھی اجمالی ذکر ہوگا یعنی سورة انبیاء کی آیات 87۔ 88 میں اور سورة الصافات کی آیات 139 تا 148 میں اور سورة قلم کی آیات 48 تا 50 میں، آپ تقریباً آٹھ سو سال قبل مسیح اہل نینوا کی طرف مبعوث ہوئے۔ نینوا اس زمانے میں دریائے دجلہ کے کنارے ایک بہت بڑا اور بارونق شہر تھا اور اس شہر کے کھنڈرات موجودہ شہر موصل (عراق) کے عین مقابل پائے جاتے ہیں یہی شہر اشوریوں (قوم یونس) کا دارالسلطنت تھا اور اس کے کھنڈرات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شہر تقریباً ساٹھ مربع میل میں پھیلا ہوا تھا۔ یونس (علیہ السلام) کا فرار اور عذاب کا ٹل جانا :۔ اشوری لوگ بھی بت پرست تھے سیدنا یونس نے سات سال تک انھیں تبلیغ کی اور اللہ کا پیغام پہنچایا مگر ان پر کچھ بھی اثر نہ ہوا اور اپنے نبی کی تکذیب اور مخالفت پر کمر بستہ رہے ایسے سرکش اور ہٹ دھرم لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ یہی ہے کہ ان پر عذاب نازل کرکے انھیں تباہ و برباد کردے اور ایسے عذاب سے انبیاء اپنی اپنی سرکش قوموں کو ڈراتے بھی رہے ہیں۔ سیدنا یونس (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے مایوس ہو کر اور تنگ آکر انھیں ایک معینہ وقت پر (بعض روایات کے مطابق 3 دن اور بعض روایات کے مطابق چالیس دن بعد) عذاب نازل ہونے کی دھمکی دے دی حالانکہ معین وقت کی قید کے ساتھ عذاب کی دھمکی دینا اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے۔ اس قوم نے پھر بھی کوئی پرواہ نہ کی اور جب عذاب آنے کے موعودہ وقت میں ایک آدھ دن باقی رہ گیا اور عذاب کے آثار نظر نہ آئے تو سیدنا یونس اللہ کے اذن کے بغیر وہاں سے چل کھڑے ہوئے کہ مبادا عذاب نہ آئے اور ان لوگوں کی نظروں میں جھوٹے ثابت ہوں۔ آپ کا اس طرح بلا حکم الٰہی نکل کھڑے ہونا بھی اگرچہ اللہ کی رضا کے خلاف تھا تاہم آپ کو سچا کرنے کی خاطر معینہ وقت پر عذاب آگیا، سیاہ بادل چھا گئے اور تاریک دھواں اس قوم کے گھروں کی طرف بڑھنے لگا اس وقت لوگوں نے سیدنا یونس کو تلاش کرنا شروع کیا اور جب وہ نہ ملے تو خود اپنے بال بچوں بلکہ حیوانوں سمیت ایک وسیع میدان میں اکٹھے ہوگئے اور اللہ کے حضور اپنے گناہوں کا اعتراف اور آہ وزاری کرنے لگے اور اس گریہ وزاری میں اتنا مبالغہ کیا کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی اور ان پر واقع ہونے والے عذاب سے انھیں نجات دے دی۔ اللہ کی سنت جاریہ میں استثناء کی یہ واحد مثال ہے کہ اس قوم پر سے آنے والے عذاب کو روک دیا گیا۔ عذاب کے ٹلنے کی وجوہ :۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس قوم سے یہ امتیازی اور استثنائی سلوک کیوں ہوا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ امتیازی سلوک بھی اللہ کے ایک دوسرے قانون کے مطابق ہوا تھا جو یہ تھا کہ سیدنا یونس امر الٰہی کے بغیر انھیں چھوڑ کر چلے گئے اور ابھی ان پر اتمام حجت کا وقت پورا نہیں ہوا تھا اور اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جس انداز سے ان لوگوں نے اللہ کے حضور آہ ورازی کی اور اپنے گناہوں سے توبہ کی اس طرح پہلے کسی قوم نے نہ کی تھی۔ واللہ اعلم بالصواب
Top