Taiseer-ul-Quran - An-Nahl : 124
اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ١ؕ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَیَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں جُعِلَ : مقرر کیا گیا السَّبْتُ : ہفتہ کا دن عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اخْتَلَفُوْا : انہوں نے اختلاف کیا فِيْهِ : اس میں وَاِنَّ : اور بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لَيَحْكُمُ : البتہ فیصلہ کریگا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت فِيْمَا : اس میں جو كَانُوْا : وہ تھے فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے
اور رہا سبت (ہفتہ) کا قصہ تو وہ صرف ان لوگوں پر مسلط کیا گیا جنہوں نے اس بارے میں اختلاف 126 کیا تھا۔ آپ کا پروردگار قیامت کے دن یقینا ان باتوں کا فیصلہ کردے گا جن میں یہ اختلاف 127 کیا کرتے تھے
126 ہفتہ کی چھٹی یہود کے اصرار پر مقرر کی گئی :۔ ہفتہ کے دن کی تعظیم کا بھی ملت ابراہیمی میں کوئی حکم نہ تھا بلکہ جمعہ کا دن ہی مقرر کیا گیا تھا اور مسلمان بھی جمعہ ہی کی تعظیم کرتے ہیں۔ اور ہفتہ کا دن یہودیوں پر یوں مسلط کیا گیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں جمعہ کی تعظیم کے لیے کہا تو کہنے لگے کہ اللہ نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا۔ وہ جمعہ کے دن فارغ ہوا اور ساتویں (ہفتہ) کے دن آرام کیا تو ہم بھی ہفتہ کے دن چھٹی کیا کریں گے اللہ کے آرام کے متعلق یہود کا یہ تصور انتہائی غلط تھا۔ تاہم ان کی اپنے نبی سے ضد کے نتیجہ میں ان پر ہفتہ کا دن مقرر کیا گیا اور سختی یہ کی گئی کہ وہ ہفتہ کے دن کاروبار سے مکمل طور پر چھٹی کریں۔ اور اللہ کی عبادت میں سارا دن گزاریں۔ پھر جس طرح انہوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی۔ اس کا تفصیلی بیان سورة بقرہ آیت نمبر 65 اور سورة اعراف آیت نمبر 166 کے تحت گذر چکا ہے۔ سبت کے بارے یہود نے پہلا اختلاف تو یہ کیا کہ جمعہ کے دن کے بجائے ہفتہ کے دن پر اصرار کیا۔ پھر یہود کا ایک قبیلہ جو بستی ایلہ میں مقیم تھا، سبت کی تعظیم پر قائم نہ رہا اور حیلوں بہانوں سے اس دن مچھلیوں کے شکار کی راہ ہموار کرلی۔ اور جب انھیں دوسرا فریق منع کرتا تو زبانی وہ یہی کہتے تھے کہ ہم نے کب سبت کی حرمت کو توڑا ہے۔ ہم سبت کے دن کب شکار کرتے ہیں۔ شکار تو ہم اتوار کو کرتے ہیں پھر عیسیٰ آئے تو وہ بھی موسوی شریعت کی پیروی کی تعلیم دیتے رہے۔ اور ہفتہ کے دن کی تعظیم کی تاکید کرتے رہے مگر بعد میں نصاریٰ نے اختلاف کیا اور ہفتہ کی بجائے اتوار کا دن چھٹی کا دن قرار دے دیا۔ چناچہ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ ہم پیچھے آئے ہیں مگر قیامت کے دن پہلے ہوں گے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اہل کتاب کو کتاب پہلے ملی اور ہمیں بعد میں ملی۔ پس وہ دن جو اللہ نے ان پر فرض کیا تھا اس میں انہوں نے اختلاف کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ دن بتادیا کہ وہ ہمارے پیچھے رہ گئے یہود تو ایک دن پیچھے رہے اور نصاریٰ اس کے بعد مزید ایک دن 127 ایک قسم کے اختلاف تو وہ ہیں جو اوپر مذکور ہوئے اور دوسرا یہ کہ یہود یہ کہتے تھے کہ سیدنا ابراہیم ہمارے دین پر تھے یعنی یہودی تھے۔ اور نصاریٰ یہ کہتے تھے کہ سیدنا ابراہیم ہمارے دین پر تھے یعنی نصاریٰ تھے۔ پھر مشرکین مکہ ہوں یا یہود، نصاریٰ ہوں یا مسلمان سب اپنا رشتہ سیدنا ابراہیم سے جوڑتے ہیں اور انھیں اپنا پیشوا تسلیم کرتے ہیں۔ ان سب باتوں کا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فیصلہ کر دے گا کہ سچا کون تھا۔ اور جھوٹا کون اور ان میں اختلافات کی حقیقت کیا تھی۔ ؟
Top