Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Taiseer-ul-Quran - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ
: پاک
الَّذِيْٓ
: وہ جو
اَسْرٰى
: لے گیا
بِعَبْدِهٖ
: اپنے بندہ کو
لَيْلًا
: راتوں رات
مِّنَ
: سے
الْمَسْجِدِ
: مسجد
الْحَرَامِ
: حرام
اِلَى
: تک
الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا
: مسجد اقصا
الَّذِيْ
: جس کو
بٰرَكْنَا
: برکت دی ہم نے
حَوْلَهٗ
: اس کے ارد گرد
لِنُرِيَهٗ
: تاکہ دکھا دیں ہم اس کو
مِنْ اٰيٰتِنَا
: اپنی نشانیاں
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
هُوَ
: وہ
السَّمِيْعُ
: سننے والا
الْبَصِيْرُ
: دیکھنے والا
پاک ہے وہ ذات جس نے ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام
1
سے لے کر مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی۔ جس کے ماحول کو ہم نے برکت
2
دے رکھی ہے (اور اس سے غرض یہ تھی) کہ ہم اپنے بندے کو اپنی بعض نشانیاں
3
دکھائیں۔ بلاشبہ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
1
واقعہ معراج کے جسمانی ہونے کے دلائل :۔ یہ واقعہ ہجرت نبوی سے تقریباً ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس واقعہ کے دو حصے ہیں۔ مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کو اسرائ کہا جاتا ہے اور قرآن میں صرف واقعہ اسراء کا ہی ذکر ہے۔ دوسرا حصہ مسجد اقصیٰ سے آسمانوں کی سیاحت اور واپسی ہے اسے معراج کہا جاتا ہے اور واقعہ معراج بہت سی احادیث میں مذکور ہے حتیٰ کہ واقعہ کے راوی صحابہ کی تعداد پچیس سے زائد ہی ہے کم نہیں۔ جمہور امت کا قول یہ ہے کہ یہ سفر جسمانی تھا۔ محض روحانی (جیسے خواب میں ہوتا ہے) یا کشفی قسم کا نہ تھا۔ تاہم بعض لوگ اسے روحانی بھی سمجھتے ہیں اور منکرین حدیث تو واقعہ معراج کا انکار ہی کردیتے ہیں اور واقعہ اسراء چونکہ قرآن میں مذکور ہے۔ اس لیے اس کی غلط سلط تاویل کرلیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ واقعہ ایک جسمانی سفر تھا اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں :
1
۔ واقعہ کا آغاز (سُبْحَانَ الَّذِی) جیسے پرزور الفاظ سے کیا جارہا ہے اور یہ لفظ عموماً حیرت واستعجاب کے مقام پر اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نمایاں اظہار کے لیے آتا ہے۔ اگر یہ واقعہ محض ایک خواب یا کشف ہی ہوتا تو ابتدا میں یہ الفاظ لانے کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔
2
۔ عبد کا لفظ جسم اور روح دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے۔ اس لفظ کا اطلاق نہ صرف جسم پر ہوتا ہے اور نہ روح پر۔
3
۔ اگر واقعہ کے بعد کافروں کا تکرار ثابت ہوجائے تو وہ خرق عادت واقعہ یا معجزہ ہوتا ہے۔ چناچہ ارشاد باری ہے : ( وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ )
54
۔ القمر :
2
) اور یہ (کافر) جب کوئی نشانی یا معجزہ دیکھتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے چلا آتا اور یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب صبح کو آپ نے یہ واقعہ سنایا تو کفار نے اس کا خوب مضحکہ اڑایا کہ مکہ سے بیت المقدس کا
40
دن کا سفر ہے اور یہ آمدورفت کا
80
دن کا سفر راتوں رات کیسے ممکن ہے۔ اور اس بات کو (نعوذ باللہ) آپ کی دیوانگی پر محمول کیا گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو لوگ بیت المقدس کا سفر کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے کچھ سوالات پوچھنا شروع کردیئے۔ اس وقت آپ حطیم میں کھڑے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے درمیان سے سب پردے ہٹادیئے تو آپ مسجد اقصیٰ کو سامنے دیکھ کر کافروں کے سوالوں کے جواب دیتے گئے جیسا کہ جابر بن عبداللہ انصاری ؓ کی حدیث سے واضح ہے جو آگے مذکور ہے۔ اور جن لوگوں نے اسے خواب کا واقعہ سمجھا ان کی دلیل اسی سورة کی آیت نمبر
60
کے درج ذیل الفاظ ہیں : (وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ ۭ وَنُخَوِّفُهُمْ ۙ فَمَا يَزِيْدُهُمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْرًا
60
ۧ)
17
۔ الإسراء :
60
) اور یہ (واقعہ) جو ہم نے تمہیں دکھایا تو یہ محض لوگوں کی آزمائش کے لیے تھا روحانی سفر سمجھنے والوں کی تردید :۔ اس آیت میں لفظ رء یا چونکہ خواب کے لیے بھی آتا ہے اس لیے ان لوگوں کو روحانی سفر کا اشتباہ ہوا اس مسلک کی کمزوری کی تین وجوہ ہیں۔
1
۔ لغوی لحاظ سے رء یا کا اطلاق ہر ایسے واقعہ پر ہوسکتا ہے جو آنکھ سے دیکھا گیا ہو خواہ یہ دیکھنا بیداری کی حالت میں ہو یا نیند کی حالت میں۔
2
۔ اگر یہ واقعہ خواب ہی ہوتا تو اس میں لوگوں کے لیے کوئی آزمائش نہیں۔ ایسا خواب ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔
3
۔ یہ مسلک جمہور امت کے مقابلہ میں شاذ ہے۔ منکرین حدیث کی تاویلات اور ان کا رد :۔ اور منکرین حدیث آیت کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اسراء سے مراد آپ کا واقعہ ہجرت ہے جس کا آغاز رات کو ہوا تھا اور مسجد اقصیٰ سے مراد دور کی مسجد یعنی مسجد نبوی ہے۔ یہ تاویل کئی لحاظ سے غلط ہے مثلاً
1
۔ بخاری کی صحیح روایت کے مطابق ہجرت کے سفر کا آغاز سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے گھر سے ہوا تھا جبکہ اس واقعہ کا آغاز مسجد حرام سے ہوا۔
2
۔ واقعہ ہجرت بخاری کی اس روایت کے مطابق دوپہر کی کڑکڑاتی دھوپ کے وقت ہوا تھا جبکہ لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں مگر معراج کا آغاز رات کو ہوا۔
3
۔ واقعہ ہجرت ایک رات یا راتوں رات نہیں ہوا تھا بلکہ اس سفر میں پندرہ دن اور پندرہ راتیں لگ گئے تھے جبکہ معراج کا واقعہ ایک ہی رات میں ہوا تھا۔
4
۔ مسجد اقصیٰ کے عرفی مفہوم کو چھوڑ کر اس کے لغوی معنیٰ دور کی مسجد مراد لینا خلاف دستور فلہٰذا باطل ہے۔
5
۔ مسجد نبوی کی تو تعمیر ہی بہت بعد ہوئی پھر یہ آپ کے سفر کی آخری منزل کیسے بن سکتی ہے۔ اور واقعہ معراج سے اس بنا پر انکار کیا جاتا ہے کہ اس میں اللہ کے لیے سمت مقرر ہوتی ہے۔ حالانکہ اللہ ہر جگہ موجود ہے۔ یہ بحث دراصل استواء علی العرش کی بحث ہے اور طویل ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں (تفصیل کے لیے دیکھئے میری تصنیف آئینہ پرویزیت) اب ہم اسراء اور معراج کے متعلق چند احادیث درج کرتے ہیں تاکہ اس واقعہ کی تفاصیل سامنے آجائیں۔
1
۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جس رات مجھے بیت المقدس لے جایا گیا تو میرے سامنے دو پیالے لائے گئے ایک دودھ کا اور دوسرا شراب کا تھا۔ میں نے دونوں کو دیکھا پھر دودھ کا پیالہ لے لیا۔ اس وقت جبرئیل نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے آپ کو فطری راستہ (یعنی اسلام) کی رہنمائی کی آپ اگر شراب کا پیالہ لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی۔
2
۔ سیدنا انس سے روایت ہے کہ معراج کی رات نبی اکرم کے پاس براق لایا گیا جسے لگام دیا گیا اور اس پر کاٹھی ڈالی گئی تھی۔ اس نے شوخی کی تو جبرئیل نے کہا محمد ﷺ سے شوخی کرتے ہو۔ حالانکہ اللہ کے ہاں ان سے زیادہ بزرگ کوئی نہیں جو تم پر سوار ہو راوی کہتا ہے کہ پھر براق کا پسینہ ٹپکنے لگا۔ (ترمذی، کتاب التفسیر)
3
۔ سیدنا بریدہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : معراج کی رات جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبریل (علیہ السلام) نے اپنی انگلی سے اشارہ کرکے ایک پتھر چیر دیا۔ پھر اس سے براق کو باندھ دیا۔ (ترمذی۔ ایضاً )
4
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب قریش کے کافروں نے مجھے جھٹلایا تو میں حجر (حطیم) میں کھڑا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے کردیا اور اس کی جو جو نشانیاں وہ مجھ سے پوچھتے۔ میں دیکھ کربتاتا جاتا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)
5
۔ سیدنا ابوذر غفاری کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : میرے گھر کی چھت کھولی گئی اور میں مکہ میں تھا۔ جبریل اترے۔ انہوں نے میرا سینہ چیرا۔ پھر اس کو زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر سونے کا ایک طشت لائے جو ایمان اور حکمت سے بھرا تھا، اسے میرے سینے میں ڈال دیا گیا۔ پھر سینہ جوڑ دیا۔ پھر جبریل نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر آسمان کی طرف چڑھے۔ جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبریل نے آسمان کے داروغہ سے کہا۔ دروازہ کھولو اس نے پوچھا کون جبریل بولے میں ہوں جبریل اس نے پوچھا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے ؟ جبریل نے کہا ہاں ! محمد ﷺ میرے ساتھ ہیں اس نے پوچھا کیا وہ بلائے گئے ہیں ؟ جبریل نے کہا ہاں تب داروغہ نے دروازہ کھول دیا۔ تو ہم آسمان دنیا (پہلے آسمان) پر چڑھے۔ وہاں ایک شخص بیٹھا تھا جس کے دائیں طرف بھی ایک مجمع تھا اور بائیں طرف بھی۔ جب وہ دائیں طرف دیکھتا تو ہنس پڑتا اور بائیں طرف دیکھتا تو رو پڑتا۔ اس نے کہا نیک پیغمبر اور نیک بیٹے مرحبا میں نے جبرئیل (علیہ السلام) سے پوچھا : یہ کون لوگ ہیں ؟ جبریل نے کہا یہ آدم ہیں ان کے دائیں طرف اہل جنت ہیں اور بائیں طرف اہل دوزخ ہیں۔ جب یہ دائیں طرف دیکھتے ہیں تو ہنس پڑتے ہیں اور بائیں طرف دیکھتے ہیں تو رو پڑتے ہیں۔ پھر جبریل (علیہ السلام) مجھے لے کر دوسرے آسمان پر چڑھے اور داروغہ سے کہا دروازہ کھولو اس نے بھی وہی کچھ کہا جو پہلے آسمان والے نے کہا تھا۔ پھر آپ نے آسمانوں میں سیدنا آدم، ادریس، موسیٰ ، عیسیٰ اور ابراہیم کو دیکھا مگر ان کے مقام بیان نہیں کیے۔ البتہ یہ بتایا کہ پہلے آسمان پر سیدنا آدم کو اور چھٹے پر سیدنا ابراہیم کو پایا۔ جب جبریل کو لے کر ادریس پیغمبر کے پاس سے گزرے تو انہوں نے مجھے دیکھ کر کہا نیک پیغمبر اور نیک بھائی مرحبا میں نے جبریل سے پوچھا یہ کون ہیں ؟ جبریل نے کہا یہ ادریس ہیں پھر میں موسیٰ پر سے گزرا تو انہوں نے وہی کچھ کہا۔ میں نے جبریل سے پوچھا۔ یہ کون ہیں ؟ جبریل نے بتایا۔ یہ موسیٰ ہیں پھر میں عیسیٰ پر سے گزرا تو انہوں نے بھی وہی کچھ کہا۔ میں نے جبریل سے پوچھا تو انہوں نے بتادیا یہ عیسیٰ ہیں پھر میں ابراہیم کے پاس سے گزرا تو انہوں نے وہی کچھ کہا۔ میں نے جبریل سے پوچھا تو انہوں نے بتایا یہ ابراہیم ہیں۔ پھر جبریل مجھے لے کر اوپر چڑھے۔ حتیٰ کہ میں ایک بلند ہموار مقام پر پہنچا۔ وہاں میں قلموں کے چلنے کی آواز سن رہا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر لوٹا۔ جب موسیٰ کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا اپنے پروردگار کے پاس واپس جاؤ۔ کیونکہ آپ کی امت اتنی طاقت نہیں رکھتی۔ میں لوٹا تو اللہ نے اس کا کچھ حصہ معاف کردیا، پھر موسیٰ کے پاس آیا تو انہوں نے کہا۔ پھر اپنے رب کے پاس جاؤ۔ تمہاری امت اتنی طاقت نہیں رکھتی میں پھر لوٹا (اور ایسا کئی بار ہوا) یہ پانچ نمازیں درحقیقت پچاس ہی ہیں۔ (دس گناہ اجر کے حساب سے) اور میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی پھر میں موسیٰ کے پاس آیا تو انہوں نے پھر وہی بات کہی۔ تو میں نے کہا اب مجھے اپنے مالک کے ہاں جاتے ہوئے شرم آتی ہے پھر جبریل مجھے لے کر چلے تو ہم سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔ اسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانپا ہوا تھا۔ میں نہیں جانتا وہ کیا تھے۔ پھر مجھے جنت میں لے گئے۔ وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ گنبد تو موتیوں کے ہیں اور اس کی مٹی کستوری کی ہے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب کیف فرضت الصلوۃ) (نیز کتاب بدأ الخلق۔ باب ادریس علیہ السلام)
6
۔ سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے (شب معراج میں) نماز فرض کی تو (ہر نماز کی) دو رکعتیں فرض کیں خواہ سفر ہو یا حضر۔ پھر سفر کی نماز تو وہی دو رکعت رہی اور حضر کی نماز بڑھا دی گئی۔ (حوالہ ایضاً )
7
۔ مالک بن صعصعہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ایک دفعہ میں کعبہ کے پاس نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں بیٹھا تھا اور تین مردوں میں سے درمیان والے نے میرا سینہ چیر کر اس میں ایمان و حکمت بھر دیا۔ پھر میرے پاس براق لایا گیا جو خچر سے ذرا چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا۔ پھر جبریل کے ساتھ پہلے آسمان پر پہنچا (مکالمہ وہی ہے جو اوپر والی روایت میں ہے) تو وہاں سیدنا آدم سے ملاقات ہوئی۔ دوسرے پر سیدنا عیسیٰ اور یحییٰ سے، تیسرے پر یوسف سے چوتھے پر ادریس سے پانچویں پر ہارون سے چھٹے پر موسیٰ اور ساتویں پر ابراہیم سے۔ پھر مجھے بیت المعمور (فرشتوں کا کعبہ) دکھلایا گیا۔ میں نے جبریل سے اس کا حال پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہاں ہر روز ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور جب وہ چلے جاتے ہیں تو ان کی پھر باری نہیں آتی پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ دکھایا گیا جس کے بیر ہجر کے مٹکوں کے برابر ہیں اور پتے ایسے جیسے ہاتھی کے کان۔ اس کی جڑ سے چار نہریں نکلتی ہیں۔ دو پوشیدہ اور دو ظاہر۔ پوشیدہ تو جنت میں (سلسبیل اور کوثر) جاتی ہیں اور ظاہری نیل اور فرات ہیں۔ پھر مجھ پر پچاس نمازیں فرض ہوئیں۔ میں سیدنا موسیٰ کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا (میں لوگوں کا حال تم سے زیادہ جانتا ہوں اور بنی اسرائیل پر بہت بڑی کوشش کرچکا ہوں لہذا تم واپس جاؤ۔ چناچہ دس نمازوں کی تخفیف ہوئی (حسب روایت سابق) پھر تیس ہوئیں، پھر بیس، پھر دس اور پھر پانچ۔ پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) نے پھرجانے کو کہا تو میں نے کہا میں انھیں اچھی طرح تسلیم کرچکا ہوں پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئی میں نے اپنا فرض پورا کردیا۔ میں نے اپنے بندوں سے تخفیف کی۔ جبکہ ہر نیکی (نماز) کا دس گناہ بدلہ دوں گا (بخاری۔ کتاب بدأ الخلق۔ باب ذکر الملائکہ) (بخاری۔ کتاب المناقب، باب المعراج) اس واقعہ کی بیشتر تفصیل تو ان احادیث میں آگئی ہے تاہم کچھ تفصیل بعض دوسری احادیث میں بھی مذکور ہے اور ان تفاصیل کے قابل ذکر عنوانات درج ذیل ہیں :
1
۔ بیت المقدس میں تمام سابقہ انبیاء کا جمع ہونا اور جبریل کا آپ کو امامت کے لیے آگے بڑھانا اور آپ کا امامت کرانا جس سے آپ کی تمام انبیاء پر فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
2
۔ مختلف آسمانوں پر بعض اولوالعزم رسولوں سے آپ کی ملاقات۔ جس سے ان رسولوں کے مدارج کا پتہ چلتا ہے۔
3
۔ پانچ نمازوں کی فرضیت یا معراج کا تحفہ جس کے بعد پانچ اوقات میں نماز ادا کی جانے لگی۔
4
۔ سات آسمانوں سے اوپر سدرۃ المنتہیٰ کی سیاحت اور اللہ تعالیٰ کے عجائب کا مشاہدہ، جنت اور دوزخ کا مشاہدہ اور بعض جرائم کی تمثیلی سزاؤں کا مشاہدہ وغیرہ۔ اس سفر کا آغاز کہاں سے ہوا تھا ؟ اس واقعہ سے متعلق ایک بحث یہ رہ جاتی ہے کہ سفر اسراء کا آغاز کہاں سے ہوا تھا ؟ سیدنا ابوذر غفاری کی حدیث کے مطابق یہ آغاز آپ کے گھر سے ہوا۔ مالک بن صعصعہ کی روایت کے مطابق کعبہ سے ہوا۔ اور ایک تیسری روایت کے مطابق ام ہانی ؓ کے گھر سے ہوا۔ اس سلسلہ میں قول فیصل یہی ہے کہ یہ آغاز مسجد الحرام سے ہوا اور قرآن اسی کی تائید کرتا ہے۔ رہیں دوسری روایات تو ان کی تطبیق کی دو صورتیں بیان کی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ مکہ پورے کا پورا مسجد الحرام ہے اور اس پر دلائل بھی مل جاتے ہیں۔ دوسری صورت تطبیق یہ ہے کہ آپ جس گھر میں بھی تھے۔ وہاں سے پہلے آپ کو مسجد حرام میں لایا گیا۔ پھر مسجد اقصیٰ کا سفر شروع ہوا۔
2
یعنی ظاہری لحاظ سے بھی یہ علاقہ زرخیز، سرسبز و شاداب ہے اور روحانی لحاظ سے وہ بہت سے انبیاء کا مرکز تبلیغ، مسکن اور مدفن ہے۔ اس لیے وہاں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکات کا نزول ہوتا رہتا ہے اور اس سے مراد شام و فلسطین کا علاقہ ہے۔
3
ان الفاظ سے بھی واقعہ معراج کی تائید ہوتی ہے اور اس سے غرض یہ تھی کہ آپ کو مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰاتِ وَالاَرْضِ کا مشاہدہ کرا دیا جائے۔ حتیٰ کہ آپ کو جنت اور دوزخ کے مناظر بھی دکھائے گئے۔ اور تمام اولوالعزم پیغمبروں کو ایسا مشاہدہ کرا دیا جاتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو پورے وثوق سے ان غیب کی چیزوں کی طرف دعوت دے سکیں جنہیں وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرچکے ہوتے ہیں۔
Top