Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 137
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا١ۚ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍ١ۚ فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُ١ۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُؕ
فَاِنْ : پس اگر اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائیں بِمِثْلِ : جیسے مَا آمَنْتُمْ : تم ایمان لائے بِهٖ : اس پر فَقَدِ اهْتَدَوْا : تو وہ ہدایت پاگئے وَاِنْ : اور اگر تَوَلَّوْا : انہوں نے منہ پھیرا فَاِنَّمَا هُمْ : تو بیشک وہی فِي شِقَاقٍ : ضد میں فَسَيَكْفِيکَهُمُ : پس عنقریب آپ کیلئے ان کے مقابلے میں کافی ہوگا اللّٰہُ : اللہ وَ : اور هُوْ : وہ السَّمِيعُ : سننے والا الْعَلِيمُ : جاننے والا
تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں اور اگر منہ پھیر لیں (اور نہ مانیں) تو وہ (تمہارے) مخالف ہیں اور ان کے مقابلے میں تمہیں خدا کافی ہے اور وہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے
(137 ۔ 38) ۔ اوپر ملت ابراہیمی کا ذکر فرما کر اس آیت میں مسلمانوں کو یہ فہمایش ہے کہ اگر تمہاری طرح اہل کتاب بھی راہ راست پر آ کر سب کتب آسمانی اور انبیاء پر ایمان لاویں اور ملت ابراہیمی کے پورے پابند ہوجاویں تو جان لینا کہ انہوں نے ہدایت الٰہی کا راستہ پالیا اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کی ہٹ دھرمی ہے اور اس ہٹ دھرمی کے سبب سے وہ تم سے مخالفت کریں تو کچھ خوف نہ کرو تمہاری مدد کے لئے اللہ کا فی ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ان اہل کتاب میں کچھ تو قتل کئے گئے اور کچھ جلا وطن ہوئے اور بعضوں کو جزیہ دینا پڑا۔ نافع کہتے ہیں میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا کہ شہادت کے وقت حضرت عثمان کا خون اسی آیت { فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہُ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم } پر گرا تھا 1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رنگ سے مراد اس آیت میں اللہ کا دین ہے 2۔ اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ نصاری نے اگرچہ یہ طریقہ نکالا ہے کہ وہ جس کو عیسائی کہتے ہیں تو زرد رنگ میں اس کو نہلاتے ہیں لیکن اے مسلمانو ! تم کو اللہ کی توحید کا رنگ ہاتھ سے نہ دینا چاہیے کہ یہ اللہ کا رنگ ہے اور اللہ سے بہتر کسی رنگ کا نہیں ہے اور اہل کتاب سے کہہ دو کہ ہم تو ملت ابراہیمی کے موافق خاص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اس لئے ہم کو اسی رنگ کافی ہے۔
Top