Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Taiseer-ul-Quran - Al-Baqara : 232
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ یَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ ذٰلِكَ یُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكُمْ اَزْكٰى لَكُمْ وَ اَطْهَرُ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذَا
: اور جب
طَلَّقْتُمُ
: تم طلاق دو
النِّسَآءَ
: عورتیں
فَبَلَغْنَ
: پھر وہ پوری کرلیں
اَجَلَهُنَّ
: اپنی مدت (عدت)
فَلَا
: تو نہ
تَعْضُلُوْھُنَّ
: روکو انہیں
اَنْ
: کہ
يَّنْكِحْنَ
: وہ نکاح کریں
اَزْوَاجَهُنَّ
: خاوند اپنے
اِذَا
: جب
تَرَاضَوْا
: وہ باہم رضامند ہو جائیں
بَيْنَهُمْ
: آپس میں
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
ذٰلِكَ
: یہ
يُوْعَظُ
: نصیحت کی جاتی ہے
بِهٖ
: اس سے
مَنْ
: جو
كَانَ
: ہو
مِنْكُمْ
: تم میں سے
يُؤْمِنُ
: ایمان رکھتا
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَ
: اور
لْيَوْمِ الْاٰخِرِ
: یوم آخرت پر
ذٰلِكُمْ
: یہی
اَزْكٰى
: زیادہ ستھرا
لَكُمْ
: تمہارے لیے
وَاَطْهَرُ
: اور زیادہ پاکیزہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
يَعْلَمُ
: جانتا ہے
وَاَنْتُمْ
: اور تم
لَا تَعْلَمُوْنَ
: نہیں جانتے
نیز جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں اپنے (پہلے) خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جبکہ وہ معروف طریقے سے آپس میں نکاح کرنے
315
پر راضی ہوں۔ جو کوئی تم میں سے اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے اسی بات کی نصیحت کی جاتی ہے۔ یہی تمہارے لیے شائستہ اور پاکیزہ
316
طریقہ ہے۔ (اپنے احکام کی حکمت) اللہ ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے
315
حضرت معقل بن یسار ؓ کہتے ہیں کہ میری بہن (جمیلہ) کو اس کے خاوند (عاصم بن عدی) نے طلاق (رجعی) دی مگر رجوع نہ کیا تاآنکہ پوری عدت گزر گئی۔ پھر عدت گزر جانے کے بعد دوبارہ نکاح کے لیے مجھے پیغام بھیجا (جب کہ مجھے اور بھی پیغام آ چکے تھے) میں نے غیرت اور غصہ کی وجہ سے ہے اسے برا بھلا کہا اور انکار کردیا اور قسم کھالی کہ اب اس سے نکاح نہ ہونے دوں گا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور میں نے اس حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور قسم کا کفارہ ادا کردیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) اس حدیث سے ضمناً یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگرچہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، جیسا کہ کئی احادیث صحیحہ سے بھی ثابت ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے عورت کی رضا کو ولی کی رضا پر مقدم رکھا ہے۔ یہاں صورت حال یہ تھی کہ جمیلہ کو نکاح کے کئی پیغام آئے اور اس کے سابق خاوند عاصم بن عدی کا پیغام بھی آیا۔ اب معقل وقتی غصہ اور غیرت کی بنا پر عاصم سے نکاح نہیں چاہتا تھا جبکہ جمیلہ عاصم ہی سے نکاح کرنے پر رضامند تھی جیسا کہ آیت کے الفاظ سے واضح ہے تو اللہ تعالیٰ نے معقل کے بجائے جمیلہ کی رضا کو مقدم رکھ کر اس کے مطابق حکم نازل فرمایا۔ نکاح کے سلسلہ میں اسلام نے عورت کی رضا کو ہی مقدم رکھا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔
1
۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بیوہ یا مطلقہ عورت کا اس وقت تک نکاح نہ کیا جائے جب تک اس سے صاف صاف زبان سے اجازت نہ لی جائے، اسی طرح کنواری کا بھی نکاح نہ کیا جائے جب تک وہ اذن نہ دے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کنواری اذن کیونکر دے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کا چپ رہنا ہی اس کا اذن ہے۔ (بخاری، کتاب النکاح۔ باب لاینکح الاب وغیرہ۔ البکروالثیب الا برضاھا)
2
۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا : یا رسول اللہ ﷺ ! کنواری لڑکی تو شرم کرتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کی رضامندی یہی ہے کہ وہ خاموش ہوجائے۔ (حوالہ ایضاً )
3
۔ خنساء بنت خذام انصاریہ ؓ کہتی ہیں کہ میرے باپ نے (اپنی مرضی سے) میرا نکاح کردیا جبکہ میں ثیبہ (شوہر دیدہ) تھی اور اس نکاح کو پسند نہیں کرتی تھی۔ آخر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی تو آپ نے میرے باپ کے کئے ہوئے نکاح کو فسخ کر ڈالا۔ (حوالہ ایضاً )
4
۔ قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ جعفر بن ابی طالب کے خاندان کی ایک عورت کو یہ خطرہ پیدا ہوا کہ اس کا ولی کہیں جبراً اس کا نکاح نہ پڑھا دے اور وہ اس نکاح سے ناخوش تھی۔ آخر اس نے کسی شخص کو دو بوڑھے انصاریوں عبدالرحمن بن جاریہ اور مجمع بن جاریہ کے پاس یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے کہلا بھیجا کہ تو کا ہے کو ڈرتی ہے۔ خنساء بنت خذام کا نکاح اس کے باپ نے جبراً کردیا تھا اور وہ اس نکاح کو پسند نہیں کرتی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے یہ نکاح فسخ کردیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب الحیل۔ باب فی النکاح)
5
۔ ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ولی کے بغیر نکاح درست نہیں ہوتا۔ (ترمذی ابو اب النکاح، باب ماجاء لانکاح الا بولی) ترمذی کے علاوہ اسے ابو داؤد، ابن ماجہ اور دارمی نے بھی روایت کیا ہے۔
6
۔ حضرت عائشہ ام المومنین ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے۔ پھر اگر خاوند نے اس سے صحبت کرلی تو اس کے عوض اسے پورا حق مہر ادا کرنا ہوگا۔ پھر اگر ان میں جھگڑا پیدا ہوجائے تو جس عورت کا کوئی ولی نہ ہو، بادشاہ اس کا ولی ہے۔ (ترمذی حوالہ ایضاً ) اس حدیث کو ترمذی کے علاوہ احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
7
۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ایک کنواری لڑکی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے باپ نے میرا نکاح جبراً کردیا ہے۔ میں راضی نہیں ہوں۔ آپ ﷺ نے اسے اختیار دے دیا۔ (ابو داؤد بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب النکاح۔ باب الولی فی النکاح و استیذان المراۃ تیسری فصل)
8
۔ ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے۔ اور نہ عورت خود اپنا نکاح کرے اور جو عورت اپنا نکاح خود کرتی ہے وہ زانیہ ہے۔ (ابن ماجہ بحوالہ مشکوٰۃ حوالہ ایضاً )
9
۔ ابو سعید اور ابن عباس ؓ دونوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس کے ہاں بچہ پیدا ہو وہ اس کا اچھا سا نام رکھے اور اچھا ادب سکھائے۔ پھر جب بالغ ہو تو اس کا نکاح کر دے۔ اگر اس کا نکاح بلوغت کے وقت نہ کیا اور وہ کسی گناہ کا مرتکب ہوا تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہوگا۔ (بیہقی شعب الایمان بحوالہ مشکوٰۃ۔ حوالہ ایضاً ) واضح رہے کہ مندرجہ بالا سب احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ البتہ ولی کی رضا پر عورت کی رضامقدم ہے۔ اور اس آیت کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو شخص اپنی عورت کو طلاق دے چکا ہو اور وہ مطلقہ عورت عدت گزار کر کسی دوسرے آدمی سے نکاح کرنا چاہتی ہو تو سابقہ شوہر کو کوئی ایسی کمینہ حرکت نہ کرنی چاہیے جو اس کے ہونے والے نکاح میں رکاوٹ پیدا کر دے جس سے عورت پر تنگی پیدا کرنا مقصود ہو۔ یہاں ایک اور مسئلہ پیدا ہوتا ہے جو موجودہ دور میں خاصی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اور وہ یہ ہے آیا ولی اپنے لڑکے یا لڑکی یا کسی دوسرے قریبی رشتہ دار کا بچپن میں نکاح کرنے کا مجاز ہے یا نہیں ؟ اور اسی مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آیا بلوغت سے پہلے یا بچپن کا نکاح درست ہے یا باطل ؟ اور یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر امت مسلمہ کے تمام فرقوں کا اتفاق ہے کہ بچپن کا نکاح درست ہوتا ہے اور ولی ایسا نکاح کرنے کا مجاز ہے۔ لیکن دور حاضر کے کچھ مجددین نے ایسے نکاح کو غلط اور باطل قرار دیا اور اسی طبقہ سے متاثر ہو کر حکومت پاکستان نے عائلی قوانین آرڈی نینس
1961
میں اس متن کا اندراج کیا کہ نکاح کے وقت لڑکے کی عمر کم از کم اٹھارہ سال اور لڑکی کی عمر کم از کم سولہ سال ہونی چاہیے۔ یہ شق چونکہ امت مسلمہ کے ایک متفق علیہ مسئلہ کے خلاف ہے لہذا ہم اس پر ذرا تفصیل سے گفتگو کریں گے۔ پہلے ہم اس متفق علیہ مسئلہ کے جواز پر دلائل پیش کرتے ہیں۔ بچپن کی شادی کے جواز پر دلائل
1
۔ قرآن میں مختلف قسم کی عورتوں کی عدت کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : آیت ( وَاڿ يَىِٕسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ ۙ وَّاڿ لَمْ يَحِضْنَ ۭ وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۭ وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ اَمْرِهٖ يُسْرًا )
65
۔ الطلاق :
4
) اور تمہاری مطلقہ عورتیں جو حیض سے ناامید ہوچکی ہوں، اگر تمہیں ان کی عدت کے بارے میں شک ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض شروع ہی نہیں ہوا اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل تک ہے۔ اس آیت میں بوڑھی، جوان اور بچی سب طرح کی عورتوں کا ذکر ہے۔ بوڑھی اور بچی جنہیں حیض نہیں آتا ان کی عدت تین ماہ ہے اور جوان عورت کی عدت اگر اسے حمل ہے تو وضع حمل تک ہے (اور اگر حمل نہ ہو تو چار ماہ دس دن ہے جیسا کہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے) اور تو ظاہر ہے کہ عدت کا سوال یا تو خاوند کے طلاق دینے کے یا مرجانے کے بعد ہی پیدا ہوسکتا ہے۔ تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بلوغت سے پہلے بھی لڑکی کا نکاح جائز ہے اور اس کا ولی اس بات کا مجاز ہے۔
2
۔ ارشاد باری ہے : آیت (ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ
49
)
33
۔ الأحزاب :
49
) اور اگر تم اپنی ایسی بیوی کو طلاق دے دو جن سے تم نے صحبت نہ کی ہو اور حق مہر مقرر رقم کا نصب دینا ہوگا۔ ذرا سوچیئے نوجوان جوڑے کی شادی ہو۔ رخصتی بھی ساتھ ہی ہوچکی ہو تو کیا ایسی صورت ممکن ہے کہ شب زفاف میں صحبت نہ کریں ؟ اور صحبت سے پہلے ہی میاں صاحب اپنی بیگم کو طلاق دے دیں ؟ ہمارے خیال میں اس کی یہی صورت ممکن ہے جس کا عرب میں عام رواج تھا کہ بچپن میں نکاح ہوجاتا تھا۔ اور رخصتی کو بلوغت تک موخر کردیا جاتا تھا۔ دریں اثناء بعض خاندانی رقابتوں کی بنا پر یا مرد کی اپنی ناپسندیدگی کی وجہ سے ایسی صورت پیش آجاتی تھی۔ تو اس کا اللہ تعالیٰ نے حل بتلا دیا کہ ایسی صورت میں مقررہ رقم کا نصف ادا کردو۔ یہ نہیں فرمایا کہ بچپن میں نکاح کیا ہی نہ کرو۔ حالانکہ دور نبوی میں بچپن میں نکاح کا رواج عام تھا۔
3
۔ خود رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے نکاح اس وقت کیا جبکہ حضرت عائشہ ؓ کی عمر صرف
7
سال تھی۔ جیسا کہ مسلم کی درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی نے ان سے نکاح اس وقت کیا جبکہ وہ سات سال کی تھیں اور جب حضرت کے گھر رخصتی ہوئی اس وقت نو برس کی تھیں اور ان کے کھیلنے کے کھلونے ان کے ساتھ تھے اور جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوئے اس وقت ان کی عمر اٹھارہ برس کی تھی۔
4
۔ چوتھی دلیل اس پر تعامل امت اور امت مسلمہ کے تمام مذاہب کا اس مسئلہ کے جواز پر اتفاق ہے۔ اور اس میں اختلاف نہ ہونا بھی اس کے جواز پر ایک قوی دلیل ہے۔ اور جن حضرات نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے ان کے دلائل یہ ہیں :۔
1
۔ نکاح میاں بیوی کے درمیان ایک عہد وفاداری ہوتا ہے جسے قرآن نے (مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا
21
)
4
۔ النسآء :
21
) کہا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ عہد اسی صورت میں نبھایا جاسکتا ہے جب کہ مرد اور عورت دونوں اس عہد کو سمجھتے ہوں۔ لہذا ان دونوں کا عاقل اور بالغ ہونا ضروری ہے۔
2
۔ قرآن نے یتیموں کے اموال کی حفاظت کے بارے میں فرمایا کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے اموال ان کو واپس کردو۔ اس سے معلوم ہوا کہ نکاح کی عمر اس وقت ہوتی ہے جب بچہ سمجھدار ہوجائے اور اپنے مال کی حفاظت کرسکے۔
3
۔ قرآن میں ہے آیت ( نِسَاۗؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ
223
۔ )
2
۔ البقرة :
223
) یعنی عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔ اور عورت کھیتی تو اس وقت ہی ہوسکتی ہے جب وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل ہوجائے۔ اسی طرح جب تک لڑکا بھی اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو اس کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ یہ ہیں وہ دلائل جو نکاح نابالغان کے منکرین کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں۔ اور ہم اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ اگر نکاح کا مقصد صرف جنسی خواہشات کی تکمیل اور حصول اولاد ہو تو نکاح کے لیے بلوغت کی عمر ہی درست ہے۔ اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا نکاح کا صرف یہی ایک مقصد ہے یا کچھ اور بھی ہوسکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں نکاح کا ارفع و اعلیٰ مقصد جس کے لیے اسلام نے نکاح کا حکم دیا ہے وہ فحاشی، بےحیائی اور زنا سے اجتناب، مرد و عورت دونوں کی عفیف اور پاکیزہ زندگی اور اس طرح ایک پاک صاف اور ستھرے معاشرہ کا قیام ہے اور اس کی دلیل درج ذیل آیت ہے :۔ آیت ( وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَاۗىِٕكُمْ ۭ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ
32
)
24
۔ النور :
32
) اور اپنی قوم کی بیواؤں کے نکاح کردیا کرو۔ اور اپنے غلاموں اور کنیزوں کے بھی جو نکاح کے قابل ہوں اس آیت میں (ایامیٰ ) کا لفظ غور طلب ہے۔ ایامی ایم کی جمع ہے۔ بمعنی رنڈوا مرد بھی اور رنڈی (بیوہ) عورت بھی۔ دونوں کے لیے یہ یکساں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی بےشوہر عورت یا بےزن مرد اور اٰم یئیم أیما ًکے معنی مرد کا رنڈوا یا عورت کا رانڈ (بیوہ) ہوجانا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ رنڈا خواہ مرد ہو یا بیوہ عورت ہو عمومی صورت یہی ہوتی ہے کہ ان کے ہاں اولاد ہوتی ہے۔ پھر جب ان کے پاس اولاد پہلے ہی موجود ہو، جوانی سے ڈھل چکے ہوں۔ مزید اولاد کی خواہش بھی نہ ہو تو پھر ایسے مجرد قسم کی عورتوں یا مردوں کو نکاح کرنے کا حکم کیوں دیا جا رہا ہے ؟ کیا اس کا یہی مقصد باقی نہیں رہ جاتا کہ معاشرہ سے فحاشی کا کلی طور پر استحاصل ہوجائے ؟ نکاح کا ایک اور اہم مقصد رشتہ اخوت و مودت کو مزید پائیدار اور مستحکم بنانا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے
51
سال کی عمر میں حضرت عائشہ ؓ سے نکاح کیا تو اس کا مقصد محض حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے رشتہ مودت کو مزید مستحکم بنانا تھا۔ اس وقت آپ صاحب اولاد تھے اگرچہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ فوت ہوچکی تھیں تاہم ان کی جگہ حضرت سودہ ؓ موجود تھیں۔ جنسی خواہشات بھی اتنی عمر میں ماند پڑجاتی ہیں۔ پھر تین سال نکاح کے بعد رخصتی نہیں ہوئی۔ تو کیا اس نکاح کا مقصد صرف وہی کچھ تھا جو یہ حضرات سمجھتے ہیں ؟ اور بعض دفعہ نکاح کے ذریعہ کئی قسم کے دینی و سیاسی معاشی اور معاشرتی فوائد حاصل ہوتے ہیں جو حصول اولاد سے بھی زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ آپ ذرا رسول اللہ ﷺ کی زندگی پر نظر ڈالیے کہ آپ نے کتنے نکاح کیے ؟ کس عمر میں کئے ؟ کس عمر کی عورتوں سے کئے اور کون کون سے مقاصد کے تحت کئے تھے ؟ اور ان سب نکاحوں سے کتنی اولاد ہوئی ؟ تو یہ حقیقت از خود منکشف ہوجائے گی کہ نکاح کا مقصد محض جنسی خواہشات کی تکمیل یا حصول اولاد ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے بلند تر مقاصد بھی ہوسکتے ہیں۔ رہی حصول اولاد کی بات تو یہ اصل مقصد نہیں بلکہ ایک اہم مقصد کا ثمرہ ہے جو کبھی حاصل ہوجاتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔ انسان کے اپنے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک بالغ جوڑے کی شادی کردی جائے اور تازیست ان کے ہاں اولاد نہ ہو۔ ایسی صورت میں بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ نکاح بےمقصد رہا۔ اگرچہ ایسے واقعات کی تعداد
5
فیصد سے زیادہ نہیں تاہم ان سے انکار بھی ممکن نہیں۔ پھر جب نکاح کے مقاصد میں ہی تنوع پیدا ہوگیا تو ضروری ہے کہ نکاح کی عمر، بلوغت میں بھی استثناء موجود ہو۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اگرچہ نکاح کی عمر بلوغت ہے تاہم یہ ہر عمر میں جائز ہے۔ اس لحاظ سے اگر ایک طرف نابالغ بچی کا نکاح نابالغ لڑکے، جوان اور بوڑھے سے جائز ہوسکتا ہے تو دوسری طرف ایک لڑکے کا یا نوجوان کا اپنے سے بہت بڑی عمر کی عورت، مطلقہ بلکہ دو تین بار کی مطلقہ سے بھی جائز ہے۔ اب رہا عقد کا معاملہ جس کے لیے فریقین کا عاقل بالغ ہونا ضروری ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا عقد صرف نکاح کا ہی نہیں ہوتا بلکہ کئی قسم کے باہمی لین دین میں بھی ہوتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی فریق عاقل یا بالغ نہ ہو تو اس کے سب معاملات ٹھپ ہوجائیں گے ؟ یا اللہ تعالیٰ نے اس کا کوئی حل بتلایا ہے ؟ چناچہ سورة بقرہ کی آیت نمبر
282
میں جہاں لین دین کے معاہدات کی تحریر کا حکم دیا گیا وہاں ایسی صورت حال کا حل بھی بتلا دیا جو یہ ہے کہ : آیت (فَاِنْ كَانَ الَّذِيْ عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيْهًا اَوْ ضَعِيْفًا اَوْ لَا يَسْتَطِيْعُ اَنْ يُّمِلَّ ھُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهٗ بالْعَدْلِ
282
۔ )
2
۔ البقرة :
282
) پھر اگر قرض لینے والا بےعقل ہو یا کمزور ہو یا مضمون دستاویز لکھوانے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کروا دے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین صورتوں میں ولی کو معاہدہ کے فریق کا مختار بنادیا ہے (
1
) نادان ہو (
2
) کمزور ہو اور (
3
) املا کروانے کی اہلیت نہ رکھتا ہو اور یہ تینوں باتیں نابالغ میں پائی جاتی ہیں۔ چہ جائیکہ صرف ایک بات پر بھی ولی کو حق اختیار مل جاتا ہے اب اگر لین دین کے معاہدہ میں نادان یا نابالغ کا ولی مختار بن سکتا ہے تو نکاح کے معاہدہ میں کیوں نہیں بن سکتا ؟ واضح رہے کہ ولی کو یہ حق اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ ایسے معاہدات کی تکمیل میں ذمہ دارانہ حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارے جو دوست نکاح کی عمر بلوغت پر زور دیتے اور اس سے پہلے کم سنی کے نکاح کو ناجائز قرار دیتے ہیں ان کا مقصد معاشرہ کی فحاشی سے پاکیزگی نہیں ہے بلکہ وہ دراصل تہذیب مغرب سے متاثر ہو کر ایسا پرچار کرتے ہیں۔ انگلستان کے مشہور معیشت دان ہتھس نے ملک کی خوشحالی کے لیے آبادی کی روک تھام کو لازمی قرار دیا تھا۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ بھی تھی کہ مردوں اور عورتوں کی شادیاں دیر سے کی جائیں تاکہ بچے کم پیدا ہوں۔ اسی نظریہ سے متاثر ہو کر ہمارے پڑھے لکھے گھرانوں میں پچیس پچیس تیس تیس سال تک شادی نہیں ہوتی۔ حالانکہ اس سے معاشرہ میں کافی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ لوگ بلوغت کی عمر کے بعد بھی دس بارہ سال شادی نہ ہونے پر اس لیے خاموش رہتے ہیں کہ یہ تاخیر ان کے نظریہ چھوٹا کنبہ خوشحال گھرانہ کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے اور اسی لیے یہ بچپن کی شادی کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور سہارا بھی قرآن کا لیتے ہیں۔ ورنہ اگر یہ لوگ قرآن مجید سے مخلص ہوتے تو جو لوگ بلوغت کے بعد بھی تادیر شادی نہیں کرتے ان کے خلاف بھی آواز اٹھاتے کیونکہ قرآن ایک صاف ستھرے معاشرے کے قیام کا حکم دیتا ہے چھوٹا کنبہ خوشحال گھرانہ کا پرچار نہیں کرتا۔ (مزید تفصیل کے لیے میری تصنیف ملاحظہ کیجئے، آئینہ پرویزیت حصہ سوم)
316
یعنی عورت کے نکاح ہوجانے میں جو معاشرتی پاکیزگی ہے۔ نکاح نہ ہونے میں نہیں اور جو معاشرتی پاکیزگی عورت کا نکاح اپنے سابقہ خاوند سے ہوجانے میں ہے وہ کسی دوسرے سے نکاح ہونے میں نہیں اور یہ ایسے امور ہیں جنہیں اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ تم نہیں جانتے۔
Top