بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Taiseer-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 1
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ
اِقْتَرَبَ : قریب آگیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حِسَابُهُمْ : ان کا حساب وَهُمْ : اور وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر رہے ہیں
لوگوں کے حساب کا وقت قریب 1 آپہنچا ہے جبکہ وہ ابھی تک غفلت میں منہ موڑے 2 ہوئے ہیں۔
1 یعنی قیامت کا وقت قریب آگیا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ یعنی آخرالزمان کی بعثت ہی اس بات کی علامت ہے کہ زمین میں بنی آدم کی آبادی کا آخری دور ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی شہادت کی اور وسطی انگلی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا : میں اور قیامت ایسے ہی جیسے یہ دو انگلیاں (بخاری : کتاب الرقاق، باب بعثت انا والساعہ کھاتین۔۔ ) اس حدیث کے بھی دو مطلب ہیں : ایک یہ کہ جتنی لمبائی شہادت کی انگلی کی ہے۔ یہ حضرت آدم سے لے کر محمد ﷺ تک کا زمانہ ہے اور جتنی وسطی انگلی شہادت کی انگلی سے بڑی ہے یہ مجھ سے لے کر قیامت تک کا زمانہ ہے۔ اس لحاظ سے تقریباً پانچ حصے عرصہ گزر چکا ہے اور ایک حصہ باقی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان دو انگلیوں کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں۔ اسی طرح میرے بعد تاقیامت کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ یہ بات بھی قریب قیامت کی علامت ہوئی۔ نیز اس جملہ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان کی موت کا وقت قریب ہے اور موت کے ساتھ ہی ان کا حساب اور جزاء و سزا کام سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اگرچہ یہ حساب اور جزاء و سزا کا سلسلہ قیامت کی نسبت بہت ہلکے پیمانہ پر ہوگا اور اس مطلب پر دلیل آپ کا یہ ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص مرگیا، اس کی قیامت قائم ہوگئی۔ (مشکوٰۃ۔ کتاب الفتن۔ باب فی قرب الساعۃ)
Top