Taiseer-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 91
وَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَ جَعَلْنٰهَا وَ ابْنَهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
وَالَّتِيْٓ : اور عورت جو اَحْصَنَتْ : اس نے حفاظت کی فَرْجَهَا : اپنی شرمگاہ (عفت کی) فَنَفَخْنَا : پھر ہم نے پھونک دی فِيْهَا : اس میں مِنْ رُّوْحِنَا : اپنی روح سے وَجَعَلْنٰهَا : اور ہم نے اسے بنایا وَابْنَهَآ : اور اس کا بیٹا اٰيَةً : نشانی لِّلْعٰلَمِيْنَ : جہانوں کے لیے
اور اس عورت کو بھی، جنہوں نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی۔ پھر ہم نے اپنی روح سے ان کے اندر پھونکا 81 اور انھیں اور ان کے بیٹے کو تمام اہل عالم کے لئے ایک نشانی بنادیا 82 ۔
81 جب اللہ تعالیٰ حضرت آدم کا پتلا بنا کر اسے سنوار لیا تو اس میں اپنی روح سے پھونکا جس سے انسان میں قوت ارادہ اختیار اور قوت تمیز و استنباط ودعیت کی گئی۔ پھر توالد و تناسل کے ذریعہ یہی اوصاف تمام اولاد آدم میں منتقل ہوئے اور یہ اوصاف ایسے ہیں جو کسی دوسری مخلوق میں نہیں پائے جاتے۔ بعد ازاں اللہ نے اپنی روح کو حضرت مریم کے ہاں بھیجا۔ یہی روح حضرت مریم کے سامنے متمثل ہو کر ایک تندرست انسان کی شکل بن گئی۔ اسی روح نے اپنے آپ کو حضرت مریم کے سامنے تیرے پروردگار کا رسول کہا اور اسی روح نے (جو مفسرین کے قول کے مطابق جبریل) حضرت مریم سے کہا کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں چناچہ اس روح نے حضرت مریم کے گریبان میں پھونک ماری جس سے حضرت مریم کو حمل قرار پا گیا۔ ( سورة مریم) اسی واقعہ کو اللہ تعالیٰ اس مقام پر بھی اور سورة تحریم کی آیت نمبر 12 میں ان الفاظ سے عبیر فرمایا کہ ہم نے مریم میں اپنی روح سے پھونکا اسی لئے آپ کو روح اللہ و کلمہ~ن~ اللہ کہا جاتا ہے۔ اور ساتھ ہی ہر مقام پر یہ وضاحت فرما دی کہ حضرت مریم نے فی الواقعہ اپنی عصمت کی پوری پوری حفاظت کی تھی۔ ایسی وضاحتوں کے باوجود یہود نے حضرت مریم پر تہمت زنا لگا دی اور اس کو حضرت زکریا سے منسوب کردیا۔ صرف اس لیے کہ آپ حضرت مریم کے کفیل تھے۔ یہ تو یہود کی کارستانی تھی اور نصاریٰ دوسری انتہا کر جا پہنچے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ کو اللہ یا اللہ کا بیٹا یا تین خداؤں میں کا تیسرا قرار دے دیا۔ گویا آپ کی اس معجزانہ پیدائش یہود و نصاریٰ غلو کا شکار ہو کر گمراہی میں مبتلا ہوگئے۔ 82 بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی کچھ لوگ ایسے پیدا ہوچکے ہیں جو حضرت عیسیٰ کی بن باپ پیدائش کے قائل نہیں۔ اور یہ وہی طبقہ جو جدید زمانے کی عقل پرستی سے ذہنی طور پر ہر وقت مرعوب رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة مریم میں فرمایا تاکہ ہم اس (عیسیٰ کی پیدائش) کو لوگوں کے لئے ایک نشانی بنادیں (19: 21) اور اس مقام پر فرمایا کہ ہم نے حضرت مریم اور اس کے بیٹے دونوں کو جہاں والوں کے لئے نشانی بنادیا نیز سورة مومنون کی آیت نمبر 50 میں فرمایا : اور ہم نے ابن مریم (حضرت عیسیٰ ) کو اور ان کی ماں کو نشانی بنادیا اب ان حضرات سے سوال یہ ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش معمول کے مطابق ماں اور باپ دونوں کے ملاپ سے ہوئی تھی تو حضرت مریم اور عیسیٰ ابن مریم دونوں کی لوگوں کے لئے یا جہان والوں کے لئے ایک نشانی کیسے بن سکتے تھے ؟
Top