Taiseer-ul-Quran - Al-Hajj : 27
وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ
وَاَذِّنْ : اور اعلان کردو فِي النَّاسِ : لوگوں میں بِالْحَجِّ : حج کا يَاْتُوْكَ : وہ تیرے پاس آئیں رِجَالًا : پیدل وَّعَلٰي : اور پر كُلِّ ضَامِرٍ : ہر دبلی اونٹنی يَّاْتِيْنَ : وہ آتی ہیں مِنْ : سے كُلِّ فَجٍّ : ہر راستہ عَمِيْقٍ : دور دراز
نیز یہ کہ لوگوں میں حج کا عام اعلان 35 کردو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور چھریرے 36 بدن کے اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں۔
35 جب کعبہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ لوگوں میں اعلان عام کردو کہ وہ حج کے لئے یہاں آئیں۔ حضرت ابراہیم کہنے لگے یہاں میری آواز کون سنے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم اعلان کردو۔ آواز پہنچا دینا میرا کام ہے۔ چناچہ حضرت ابراہیم نے ایک پہاڑ پر کھڑے ہو کر پکارا : لوگو ! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے۔ لہذا حج کو آؤ۔ اور اللہ نے یہ آواز ہر اس شخص اور اس روح تک پہنچا دی جس کے لئے حج مقدر تھا اور اس کی روح نے اس اعلان پر لبیک کہا۔ 36 یہاں ضامر کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ضامر وہ جانور ہے جو خوراک کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ سدھارنے اور مشن کی کثرت اور کسرت کی وجہ سے دبلا پتلا اور چھریرے بدن والا ہوجائے اور سبک رو، یا سبک خرام ہو تاکہ مقابلہ میں آگے نکل سکے۔ اور جانور بھوک کی کمی کی وجہ سے دبلا ہو اسے عجف کہتے ہیں۔ عرب میں ضامر کا لفظ عموماً اونٹ کے لئے مختص ہوگیا خواہ وہ نر ہو یا مادہ اور اونٹ کا نام بطور خاص اس لیے لیا گیا کہ اس زمانہ میں اور اس علاقہ میں اونٹ ہی آمدورفت اور نقل و حرکت کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔
Top