Taiseer-ul-Quran - Al-Hajj : 29
ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ
ثُمَّ : پھر لْيَقْضُوْا : چاہیے کہ دور کریں تَفَثَهُمْ : اپنا میل کچیل وَلْيُوْفُوْا : اور پوری کریں نُذُوْرَهُمْ : اپنی نذریں وَلْيَطَّوَّفُوْا : اور طواف کریں بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : قدیم گھر
پھر اپنا میل کچیل 41 دور کریں اور اپنی نذریں 42 پوری کریں اور اس قدیم گھر کا طواف 43 کریں۔
41 یعنی دس ذی الحجہ کو قربانی کرنے کے بعد حج کرنے والے حضرات حجامت بنوائیں، ناخن کٹوائیں، نہائیں دھوئیں، اور راستے کی گرد اور میل کچیل دور کریں۔ اور احرام کھول کر عام لباس پہن لیں۔ اس سلسلہ میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ احرام کھولنے کے بعد احرام کی دوسری پابندیاں تو ختم ہوجاتی ہیں مگر اپنی بیوی کے پاس جانا اس وقت تک جائز نہیں ہوتا جب آدمی طواف افاضہ نہ کرلے۔ جس کا ذکر اسی آیت کے آخری جملہ میں ہے۔ 42 یعنی جو بھی نذر کسی حاجی نے اس موقع کے لئے مانی ہو۔ اور بعض کے نزدیک نذر سے مراد وہی قربانی یا قربانیاں ہیں جن کا حاجی نے ارادہ کر رکھا ہو۔ 43 عتیق کا ایک معنی آزاد ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس گھر پر کسی ظالم اور جابر بادشاہ کا قبضہ نہیں ہوسکتا اور ایسے حملہ آوروں کا وہی حشر ہوگا جو اصحاب الفیل کا ہوا تھا۔ حتیٰ کہ یاجوج ماجوج کی یورش کے بعد بھی تاقیامت بیت اللہ کا طواف اور حج آزادانہ طور پر ہوتا رہے گا۔ چناچہ حضرت عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : بیت اللہ کا نام بیت العتیق اس لئے ہوا کہ اس پر کبھی کوئی ظالم غالب نہیں ہوا (ترمذی، ابو اب التفسیر) حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ نے فرمایا : کہ (قیامت کے قریب) ایک لشکر کعبہ پر چڑھ آئے گا۔ جب وہ بیداء کے کھلے میدان میں پہنچیں گے تو سب کے سب اول سے آخر تک زمین میں دھنسا دیئے جائیں گے (بخاری۔ کتاب البیوع۔ باب ماللہ کر فی الاسواق) البتہ قیامت کے بالکل نزدیک ایک چھوٹی پنڈلیوں والا کالا حبشی کعبہ کو گرانے آئے گا اور وہ اسے گرا دے گا۔ آپ نے فرمایا : گویا میں کعبہ کے گرانے والے کو دیکھ رہا ہوں، ایک کالا پھڈا اس کا ایک ایک پتھر اکھیڑ رہا ہے (بخاری، کتاب المناسک، باب حرم الکعبہ~ن)~ اور عتیق کا دوسرا معنی ہر وہ چیز ہے جس کے قدیم ہونے کے باوجود اس کی شرافت، نجابت اور احترام میں کوئی فرق نہ آئے۔ زندہ جاوید۔ اسی لحاظ سے کعبہ کو بیت العتیق کہتے ہیں۔ دس ذی الحجہ کو رمی الحجار، قربانی، غسل اور احرام کھولنے کے بعد بیت اللہ کا طواف کرنا ضروری ہے اور اس طواف کو طواف افاضہ یا طواف زیارت کہتے ہیں اور یہ طواف حج کا رکن ہے اور واجب ہے۔ احرام کی پوری پابندیاں اس طواف کے بعد ہی ختم ہوتی ہیں۔ اور اگر طواف کرنے والا۔۔ یا لاغر ہو تو سوار ہو کر بھی طواف کیا جاسکتا ہے چناچہ حج اور قربانی کے کچھ احکام تو سابقہ چار آیات میں مذکور ہوچکے اور کچھ آئندہ آیات میں بتلائے جارہے ہیں اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کہ یہاں کچھ متعلقہ مسائل اور احادیث بھی درج کردی جائیں اور وہ حسب ذیل ہیں : 1۔ براء بن عازب کہتے ہیں کہ آپ نے عید الضحیٰ کے دن خطبہ کے دوران فرمایا : آج کے دن ہمیں پہلے نماز ادا کرنا چاہئے۔ پھر واپس جاکر قربانی کرنا چاہئے۔ جس نے اس طرح کیا وہ ہماری سنت پر چلا اور جس نے قربان (نماز سے پہلے) کرلی۔ اس کی قربانی ادا نہیں ہوئی بلکہ اس نے اپنے گھر والوں کے لئے گوشت کی خاطر بکری کاٹی اس پر ابو بردہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میں نے تو نماز سے پہلے ہی ذبح کرلیا اور اب میرے پاس کوئی بکری نہیں) صرف ایک جذعہ (ہٹھیا) ہے جو مسنہ (دوندی یا دو سال کی) بہتر ہے آپ نے فرمایا : اچھا اب وہ قربانی کرلو اور تمہارے بعد کسی کو ایسا کرنا کافی اور درست نہ ہوگا (بخاری۔ کتاب الاضاحی۔ باب الذبح بعدالصلوۃ) اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ قربانی نماز عید کے بعد ہی ہوسکتی ہے۔ دوسرے اگر بکری قربانی دینا ہو تو اس کا مسنہ ہونا ضروری ہے۔ 2۔ حضرت یونس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو چتکبرے مینڈھے قربانی کئے۔ میں نے دیکھا۔ آپ اپنا پاؤں ان کے منہ کے ایک جانب رکھے ہوئے بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر اپنے ہاتھ سے ذبح کر رہے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الاضاحی۔ باب من ذبح الاضاحی بیدہ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ (1) قربانی کا جانور خوبصورت اور موٹا تازہ ہونا چاہئے (2) ایک شخص ایک سے زیادہ قربانیاں بھی دے سکتا ہے۔ (3) جانور کو لٹا کر اور اسے خوب قابو کرکے ذبح کرنا چاہئے۔ (4) ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا ضروری ہے۔ (5) اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے کرنا افضل ہے۔ 3۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ : ہم منیٰ میں تھے کہ گائے کا گوشت لایا گیا، میں نے پوچھا : یہ کہاں سے آیا ہے صحابہ نے عرض کیا : رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیبیوں کی طرف سے ایک گائے قربانی کی ہے (بخاری۔ کتاب الاضاحی۔ باب الاضحیہ~ن~ للمسافرو النسائ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ (1) صاحب استطاعت کو اپنے گھر والوں کی طرف سے الگ قربانی دینا سنت ہے۔ (2) حج کرنے والوں کو قربانی منیٰ کے مقام پر کرنا چاہئے۔ 4۔ حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اسی مذبح میں قربانی ذبح کیا کرتے تھے جہاں رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے (بخاری۔ کتاب الاضاحی۔ باب الاضحیٰ والمخر بالمصلی) یعنی منیٰ بھی سارے کا سارا علاقہ مذبح نہیں۔ بلکہ قربانی مذبح خانہ میں جاکر کرنا چاہئے۔ 5۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے حج (10 ھ) کی کیفیت بیان کرتے ہوئے بتلاتے ہیں کہ : ایک نحر کی جگہ آئے تو ٹریسٹھ (63) اونٹ اپنے دست مبارک سے ذبح کئے باقی سینتیس (37) حضرت علی ؓ کو دیئے جو انہوں نے نحر کئے۔ اور ان کو اپنی قربانی میں شریک کیا (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب۔۔ النبی )~ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ (1) دو آدمی مل کر بھی قربانی کرسکتے ہیں۔ (2) قربانی جتنی زیادہ سے زیادہ کوئی دے سکتا ہو 1، دینا چاہئے۔ 6۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ نے فرمایا : قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کو انسان کے عملوں میں خون بہانے سے بڑھ کر کوئی عمل محبوب نہیں ہے (ترمذی۔ مع تحفہ~ن~الاحوذی ج 2 ص 352) 7۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ میں دس سال رہے اور ہمیشہ قربانی کرتے رہے (ترمذی حوالہ ایضاً ) 8۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو شخص استطاعت رکھتا ہو۔ پھر قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے (ابن ماجہ، کتاب الاضاحی۔ اردو ص 381 مطبوعہ مکتبہ سعودیہ، کراچی) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی اگرچہ ہر مسلمان پر واجب نہیں تاہم صاحب استطاعت کے لئے سنت موکدہ ضرور ہے۔ 9۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : مسنہ (بکری وغیرہ جو ایک سال کی ہو کر دوسرے میں لگی ہو) کی قربانی کرو۔ البتہ جب ایسا جانور نہ مل رہا ہو۔ تو جذعہ دنبہ (جو چھ ماہ کا ہو کر ساتویں میں لگا ہو) کرلو (مسلم۔ کتاب الاضاحی۔ باب سن الاضحیہ) 10۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (حجہ~ن~ الوداع) میں سو اونٹ قربانی کئے اور مجھے حکم دیا کہ ان کا گوشت بانٹ دوں۔ میں نے سارا گوشت بانٹ دیا۔ پھر آپ نے فرمایا : ان کی۔۔ بھی بانٹ دو میں نے وہ بھی بانٹ دیں۔ پھر آپ نے ان کی کھالیں بانٹنے کا حکم فرمایا، میں نے وہ بھی بانٹ دیں۔ نیز آپ نے فرمایا کہ ان میں سے کوئی بھی چیز قصاب کو مزدوری میں نہ دو (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب لایعطی الجزار من الہدی شیأا) 11۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ عیدالضحیٰ کے دن عید میں شریک ہونے کے لئے دیہات سے (محتاج) لوگ آگئے۔ تو آپ نے فرمایا : قربانی کے گوشت سے تین دن تک کے لئے رکھ لو۔ باقی خیرات کردو۔ (تاکہ محتاجوں کو بھی کھانے کو گوشت مل جائے) بعد میں لوگوں نے عرض کیا کہ : ہم اپنی قربانیوں کی کھالوں سے مشکیں بناتے تھے اور ان میں چربی پگھلاتے تھے آپ نے پوچھا : تو اب کیا ہوا ؟ صحابہ نے عرض کیا : آپ نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا آپ نے فرمایا : میں نے تمہیں ان محتاجوں سے منع کیا تھا جو اس وقت موقع پر آگئے تھے۔ اب تم کھاؤ بھی، صدقہ بھی کرو اور رکھ بھی سکتے ہو (مسلم۔ کتاب الاضاحی۔ باب النبی عن اکل لحوم الاضاحی بعد ثلاث و نسخہ) 12۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں قربانی کا گوشت توشہ کرکے مدینہ تک آئے۔ ابو سفیان نے کہا اس حدیث میں قربانی سے مراد ہدی (مکہ میں کی ہوئی قربانی) ہے۔ (بخاری، کتاب الاضاحی۔ باب اکل من لحوم الاضاحی وما یستو ود منہا) 13۔ زیاد بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر ؓ کو دیکھا۔ وہ ایک شخص کے پاس آئے جس نے نحر کرنے کے لئے اپنا اونٹ بٹھایا تھا۔ عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا : اس اونٹ کو کھڑا کر اور پاؤں باندھ دے (پھرنحر کر) رسول اللہ ﷺ کی یہی سنت ہے۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ نحرالابل مقیدۃ) 14۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے تو آپ نے ہمیں حکم دیا کہ اونٹ اور گائے (کی قربانی) میں سات سات آدمی شریک ہوجائیں (مسلم۔ کتاب الحج باب جواز الاشتراک فی الحج) 15۔ حضرت رائع بن خدیج کہتے ہیں کہ ہم تہامہ کے علاقہ میں ذوالحلیفہ کے مقام پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ وہاں ہمیں بکریاں اور اونٹ ملے ہم نے جلدی کرکے گوشت کاٹ کر ہنڈیاں چرھا دیں۔ آپ نے ہمیں وہ ہنڈیاں اوندھ دینے کا حکم دیا۔ پھر آپ نے دس بکریاں ایک اونٹ کے برابر رکھیں۔ (مسلم۔ کتاب الاضاحی۔ جواز الاذبح بکل ما انہر الام) اس حدیث کو امام مسلم، کتاب الاضاحی میں درج کرکے یہ اجتہاد کیا ہے کہ اونٹ کی قربانی میں دس آدمی تک شریک ہوسکتے ہیں جبکہ گائے، بیل میں صرف سات آدمی ہی شریک ہوسکتے ہیں۔ 16۔ عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص حالت احرام میں۔۔ کرے اور اسے اس کا بدلہ کے جانور یا نذر کے جانور میں سے کچھ نہ کھائے۔ باقی سب میں سے کھا سکتا ہے۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب ما یا کل من ائبدن۔۔ ) 17۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو قربانی کا اونٹ ہانک رہا تھا (اور خود پیدل چل رہا تھا) آپ نے اسے فرمایا : اسپر سوار ہوجا وہ کہنے لگا : یہ قربانی کا جانور ہے آپ نے دوبارہ فرمایا : اس پر سوار ہوجا وہ پھر کہنے لگا : یہ قربانی کا جانور ہے آپ نے تیسری بار اسے فرمایا : ارے کم بخت اس پر سوار ہوجا (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب رکوب البدن۔۔ ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت قربانی کے جانور پر سوار ہونا شعائر اللہ کی تعظیم کے منافی نہیں۔ 18۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ایک بوڑھے کو دیکھا جو اپنے دونوں بیٹوں کا سہارا لئے چل رہا ہے۔ آپ نے پوچھا : اسے کیا ہوا ہے ؟ لوگوں نے کہا : اس نے پیدل کعبہ کو جانے کی منت مانی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ کو اس بات کی حاجت نہیں کہ وہ اپنے آپ کو تکلیف دے اور اسے حکم دیا کہ وہ سوار ہوجائے۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ جواب من نذر المشیہ~ن~ الی الکبعہ~ن)~ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیدل سفر حج کار ثواب نہیں بلکہ مکروہ کام ہے اور اگر کسی نے ایسی نیت کی بھی ہو تو اسے پورا نہ کرنا چاہئے۔ 19۔ حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ آپ جب مزدلفہ سے منیٰ میں آئے تو پہلے جمرہ عقبہ پر گئے اور کنکریاں ماریں۔ پھر اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے۔ پھر قربانی کی۔ پھر حجام سے سر مونڈنے کو کہا پہلے داہنی طرف سے پھر بائیں سے پھر وہ بال آپ نے صحابہ کو دے دیئے۔ (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب ان السنہ یوم النحران برمیثم ینحر) یوم النحر کے کاموں کی از روئے سنت ترتیب یہ ہے پہلے رمی (2) بعد میں قربانی (3) پر حجامت اور احرام کھولنا۔ (3) پر حجامت اور احرام کھولنا اور (4) طواف افاضہ یا طوائف الزیادۃ تاہم ان کاموں میں تقدیم و تاخیر ہوجائے تو کچھ حرج نہیں، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : 20۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : میں نے رمی سے پہلے طواف الزیارۃ کرلیا۔ آپ نے فرمایا کہ حرج نہیں اور ایک شخص نے کہا میں نے شام ہوجانے کے بعد رمی کی آپ نے فرمایا : کچھ حرج نہیں ایک نے کہا : میں نے قربانی سے پہلے سر منڈالیا۔ آپ نے فرمایا : حرج نہیں۔ (بخاری۔ کتاب المناسک، باب الذبح قبل الحلق) 21۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : یا اللہ سر منڈانے والوں کو بخش دے لوگوں نے عرض کیا : اور بال کترانے والوں کو ؟ آپ نے دوبارہ فرمایا : یا اللہ بال منڈانے والوں کو بخش دے لوگوں نے پھر کہا، اور بال کترانے والوں کو ؟ غرض آپ نے تین بار سر منڈانے والوں کے لئے بخشش طلب فرمائی اور چوتھی بار فرمایا اور بال کترانے والوں کو بھی (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب الحلق والتقصیر عندالاحلال) 22۔ حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ (قربانی کرنے تک) نہ حجامت بنائے اور نہ ناخن کاٹے (مسلم۔ کتاب الاضاحی۔ باب النہی من دخل علیہم شر ذی الحجہ۔۔ ) 23۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کیا اور دسویں تاریخ کو ہی طواف الزیارۃ کرلیا۔ پھر ام المومنین حضرت صفیہ کو حیض آگیا۔ آپ نے ان سے صحبت کرنا چاہی۔ تو میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! وہ تو حائضہ ہیں آپ نے فرمایا : گویا اس نے ہمیں یہاں روک دیا ؟ لوگوں نے کہا وہ دسویں تاریخ کو طواف الزیارۃ کرچکی ہیں آپ نے فرمایا : پھر کیا ہے چلو نکلو (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب الزیارۃ یوم النحر) اس حدیث سے طوائف الزیارۃ کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ جب تک حاجی طواف الزیارۃ نہ کرلے اس کا حج مکمل نہیں ہوتا۔ نہ وہاں مکہ سے رخصت ہوسکتا ہے۔ 24۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ نے خطبہ کے دوران ارشاد فرمایا : لوگو ! تم پر حج فرض ہے۔ لہذا حج کرو ایک شخص (اقرع بن حابس) کہنے لگا : کیا ہر سال یارسول اللہ ! ؟ آپ خاموش رہے۔ اس شخص نے تین بار یہی سوال کیا پھر آپ نے فرمایا : اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج فرض ہوجاتا اور تم یہ کم بجا نہ لاسکتے۔ لہذا مجھے وہاں چھوڑ دو جہاں میں تم کو چھوڑ دوں (بات کرنا بند کردوں) کیونکہ تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ جنہوں نے اپنے نبیوں سے بہت سوال کئے اور ان سے بہت اختلاف کرتے رہے۔ تو جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جتنا ہوسکے اسے بجا لاوو۔ اور جب میں کسی بات سے منع کروں تو اس سے رک جاؤ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب کراھہ اکثار السوال من غیر ضرورۃ، ابن ماجہ باب اتباع السنہ آخری حدیث) حج اور بالخصوص قربانی کے مسائل کی یہ تفصیل اس لیے دینا پڑی کہ مسلمانوں میں سے ہی کچھ لوگ ایسے پیدا ہوچکے ہیں۔ جو کہ قربانی کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ کبھی وہ یہ کہتے ہیں کہ قربانی صرف مکہ میں ہے اور حاجیوں کے لئے ہے اور ہم لوگ جو ہر شہر اور ہر بستی میں قربانیاں کرتے ہیں ان کا کوئی حکم نہیں۔ کہیں وہ اسے گوشت اور مالی ضیاع سے تعبیر کرتے ہیں اور کبھی یہ درد اٹھنے لگتا ہے کہ جتنی رقم قربانیوں پر خرچ کی جاتی ہے اتنی رقم سے محتاجوں کے لئے کئی رہائشی منصوبے بنائے جاسکتے ہیں۔ اور کبھی کہتے ہیں کہ جتنی رسم کسی قربانی پر صرف ہوتی ہے اتنی رقم صدقہ میں صرف کردی جائے تو بہتر ہے۔ مندرجہ بالا احادیث میں ان کی ان سب باتوں کا جواب اور تردید موجود ہے۔ ایسے لوگ دراصل مغربیت اور مغربی تہذیب سے مرعوب، اس کے شیدائی اور کھاتے پیتے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ اگر قربانی سے دگنی رقم۔۔ اور اپنی عیاشیوں پر خرچ کردیں تو وہ ان کے نزدیک مالی ضیاع نہیں ہوتا۔ لیکن قربانی میں انھیں کئی طرح کے نقصانات نظر آنے لگتے ہیں۔ بہرحال ان کے سب اقوال خوئے بدرا بہانہ بسیار، کا مصداق ہوتے ہیں۔ انھیں محتاجوں اور فقیروں سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی اور اگر بالفرض حکومت کوئی ایسا منصوبہ بنا بھی لے تو وہ خود کبھی اس فنڈ میں کچھ دینا گوارا نہ کریں گے۔ ان کی اصل غرض صرف یہ ہوتی ہے کہ قربانی نہ کرنے کے باوجود بھی وہ مسلمانوں کی نظروں میں بخیل اور چور نہ سمجھے جائیں۔ (ایسے لوگوں کے دلائل کی تفصیل اور ان کی تردید کے لئے دیکھئے میری تصنیف آئینہ پرویزیت حصہ سوم)
Top