Taiseer-ul-Quran - Al-Muminoon : 14
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا١ۗ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ١ؕ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَؕ
ثُمَّ : پھر خَلَقْنَا : ہم نے بنایا النُّطْفَةَ : نطفہ عَلَقَةً : جما ہوا خون فَخَلَقْنَا : پس ہم نے بنایا الْعَلَقَةَ : جما ہوا خون مُضْغَةً : بوٹی فَخَلَقْنَا : پھر ہم نے بنایا الْمُضْغَةَ : بوٹی عِظٰمًا : ہڈیاں فَكَسَوْنَا : پھر ہم پہنایا الْعِظٰمَ : ہڈیاں لَحْمًا : گوشت ثُمَّ : پھر اَنْشَاْنٰهُ : ہم نے اسے اٹھایا خَلْقًا : صورت اٰخَرَ : نئی فَتَبٰرَكَ : پس برکت والا اللّٰهُ : اللہ اَحْسَنُ : بہترین الْخٰلِقِيْنَ : پید ا کرنے والا
پھر نطفہ کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا پھر بوٹی کو ہڈیاں بنایا پھر ہڈیوں پر گوشت 13 چڑھایا، پھر ہم نے اسے ایک اور ہی 14 مخلوق بناکر پیدا کردیا۔ بس بڑا بابرکت ہے، اللہ جو سب بنانے والوں سے 15 بہتر بنانے والا ہے۔
13 رحم مادر میں نطفہ کی نشوونما کے دوران جو مراحل پیش ہوتے ہیں۔ ان کی تشریح سورة حج کی آیت نمبر 5 کے تحت کی جاچکی ہے۔ 14 یعنی نطفہ اور بےجان گوشت کے لوتھڑے سے ایک جیتا جاگتا عقل و شعور رکھنے والا انسان بنا کر پیدا کردیا۔ جس کا ایک ایک عضو اور رگ حدیشہ کئی مقاصد کی تکمیل کر رہا ہے اور اس کا کوئی بھی حصہ بیکار پیدا نہیں کیا گیا۔ اب انسان کی اندرونی ساخت پر عور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کئی قسم کی آٹو میٹک کلوں اور مشینوں کی مجموعہ ہے کہیں چکی لگی ہے، کہیں چھلنی ہے، کہیں پیسنے کی کل، کہیں کوٹنے کی، کہیں توڑنے کی کہیں جذب کرنے والی کہیں فضلات کو باہر پھینکنے والی، کہیں اچھالنے والی اور کہیں اتارنے والی اور یہ خودکار مشینیں اس قدر مضبوط، مربوط اور منظم طریقے سے کام کر رہی ہیں جن کا مطالعہ کرکے انسان اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور حکمتوں پر عش عش بھی کر اٹھتا ہے اور ورطہ~ئ~حیرت میں گم بھی ہوجاتا ہے۔ معدہ خالی ہوجائے تو از خود انسان کو بھوک اور پیاس لگتی ہے اور وہ کھانے پینے پر مجبور ہوتا ہے۔ اور جب غذا معدہ میں پہنچ جاتی ہے تو یہ سب خود کار مشینیں اپنا اپنا کام شروع کردیتی ہیں۔ اگر ان میں سے کسی کل میں خرابی واقع ہوجائے تو انسان بیمار پڑجاتا ہے اور اگر خرابی درست نہ ہو بلکہ بڑھ جائے تو انسان مرجاتا ہے۔ یہ تو تھا جسم کی اندرونی ساخت کا قصہ، اب اس کے قوی پر نظر دوڑائیے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس میں زندگی کی ابتدائی خصوصیات کے سوا کسی بھی نہیں ہوتا نہ سماعت، نہ بصارت، نہ گویائی، نہ چلنے یا بیٹھنے کی طاقت، نہ عقل و خرد، نہ کوئی اور خوبی۔ مگر وہ رحم مادر سے باہر آکر کوئی اور ہی چیز بننا شروع ہوجاتا ہے۔ جس کو پیٹ والے جنین سے کوئی مناسب نہیں ہوتی۔ تھوڑی ہی مدت میں وہ ایک سمیع وبصیر اور ناطن بچہ بن جاتا ہے۔ اب وہ کچھ علم ماحول سے حاصل کرتا ہے اور کچھ اپنے ذاتی تجربہ اور مشاہدہ سے۔ ذرا اس میں عقل آتی ہے تو اس میں دوسروں سے سابقت یا آگے نکل جانے کا فن پیدا ہوتا ہے۔ اس کی یہ بیداری اور خودی اسے ہر اس چیز پر اپنا تحکم جتانے اور اپنا زور منوانے کی کوشش کرتی ہے۔ جس پر اس کا بس چل سکتا ہو اور اس کی یہی بیداری اور خودی اس میں کوئی اور ہی چیز ہونے کی کیفیت کو نمایاں تر اور افزوں تر کوئی چلی جاتی ہے۔ پھر وہ جوان اور پختہ عمر کا ہوتا ہے تو اس تمام قوتیں، طاقت اور قابلیتیں بھی بڑھتی جاتی ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب اس میں بمچوما دیگرے نیست کا تصور پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ بسا اوقات بعض انسان ایسے محیرالعقول کارنامے بھی سرانجام دیتے ہیں جو عام انسانوں کی بساط سے باہر ہوتے ہیں۔ 15 اب اگر انسان ذرا سا بھی غور کرے کہ کس طرح ایک حقیر پانی کی بوند سے اس کی زندگی کا آغاز ہوا۔ اور مختلف مراحل طے کرانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے کیا سے کیا بنادیا۔ تو بےاختیار اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل آتے ہیں کہ (فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ 14؀ۭ ) 23 ۔ المؤمنون :14) یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات مقدس کس قدر خیرو خوبی والی اور حکمتوں اور قدرتوں والی ہے جس نے انسانی تخلیق کا آغاز مٹی سے یا نطفہ سے کیا پھر مختلف مراحل طے کراکر محیرالعقول طریقوں سے اسے ایک باشعور اور صاحب ادارہ و اختیار انسان بنادیا۔ واضح رہے کہ تبارک کا لفظ عموماً اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہے اور ان خیر کے کاموں کے سلسلہ میں آتا ہے جو صرف اللہ تعالیٰ سے مختص ہیں۔
Top