Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Taiseer-ul-Quran - Al-Furqaan : 1
تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَاۙ
تَبٰرَكَ
: بڑی برکت والا
الَّذِيْ
: وہ جو۔ جس
نَزَّلَ الْفُرْقَانَ
: نازل کیا فرق کرنیوالی کتاب (قرآن)
عَلٰي عَبْدِهٖ
: اپنے بندہ پر
لِيَكُوْنَ
: تاکہ وہ ہو
لِلْعٰلَمِيْنَ
: سارے جہانوں کے لیے
نَذِيْرَۨا
: ڈرانے والا
متبرک
1
ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے
2
پر فرقان
3
(قرآن) نازل کیا تاکہ وہ کل اہل عالم کے لئے (برے انجام سے) ڈرانے والا
4
بن جائے۔
1
تبارک کا وہ مادہ ب ر ک ہے۔ اسی سے لفظ برکت ہے اور کسی چیز سے زیادہ سے زیادہ متوقع یا غیر متوقع فوائد حاصل ہوجانے کا نام برکت ہے۔ اور بابرکت وہ ذات ہے جو دوسروں کو زیادہ سے زیادہ متوقع اور غیر متوقع فوائد پہنچانے والی ہو۔ علاوہ ازیں تبارک کے لفظ میں تمہیدی اور تقدس کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے اور یہ لفظ اللہ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے۔
2
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر اپنے پیارے رسول کے لئے عبد کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی امتوں نے بھی اپنے رسول کی شان میں عقیدت مندی کی بنا پر غلو کیا تھا اور انھیں ان کے حقیقی مقام سے اٹھا کر اللہ کے ساتھ جا ملایا تھا۔ یہود نے کہا کہ عزیر کے جسم میں اللہ تعالیٰ نے حلول کیا ہے اور وہ اللہ کے اوتار تھے، ہندوؤں میں بھی اوتار یا حلول کا عقیدہ بکثرت پایا جاتا ہے اور نصاریٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بھی کہا بلکہ اس سے بڑھ کر اللہ ہی بنادیا۔ اسی لئے آپ نے واضح الفاظ میں اپنی امت کو تنبیہ فرمائی کہ مجھے میری حد سے ایسے نہ بڑھانا چڑھانا جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کو چڑھا دیا میں تو اللہ کا بندہ ہوں لہذا تم یوں کہو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول (بخاری، کتاب بدوالخلق۔ باب واذکر فی الکتاب مریم) لیکن افسوس ہے کہ آپ کی اس تنبیہ کے باوجود مسلمانوں نے بھی وہی کچھ کیا جو پہلی امتیں کرتی رہیں۔ مسلمانوں کے طبقہ نے آپ کو نور من نور اژ قرار دیا۔ اور کچھ لوگوں نے یوں کہا : وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر اتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفٰے ہو کر یہود و نصاریٰ نے تو اس حلول کے عقیدہ کو انبیاء تک محدود رکھا تھا مگر مسلمانوں نے یہ کمال دکھایا کہ انبیاء کے علاوہ دوسرے بزرگوں میں بھی اللہ کے حلول کا عیقدہ اپنا لیا۔ اسی طرح کا ایک دوسرا شعر : اپنا اللہ میاں نے ہند میں نام رکھ لیا خواجہ غریب نواز بھی اسی عقیدہ حلول کی وضاحت کر رہا ہے۔ اسلام میں اس عقیدہ کو داخل کرنے والا ایک یہودی عبداللہ بن سبا تھا۔ یہ یمن کے شہر شنعاء کا رہنے والا اور نہایت ذہین و فطین آدمی تھا۔ جب اس نے یہ معلوم کرلیا کہ عملی میدان میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی یہودیوں میں سکت باقی نہیں رہ گئی تو اس نے فریب کاری کے طور پر اسلام قبول کیا اور درویشی کا لبادہ اوڑھ کر زہدوتقویٰ کے روپ میں سامنے آتا۔ یہ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں مسلمان ہوا اور حالات کے دھارے کا انتظار کرتا رہا۔ اس کی یہ سازشی تحریک انتہائی خفیہ طور پر مکہ اور مدینہ سے اور دوسرے علاقوں مثلاً کوفہ، بصرہ اور مصر میں اپنا کام کر رہی تھی۔ بالاخر اسی یہود کے حامیوں نے حضرت عثمان ؓ پر مختلف الزامات عائد کئے اور موقعہ پاکر غنڈہ گردی کرکے
35
ھ میں انھیں شہید کردیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون اسلام کے جسم پر اس نے دو طرح کے وار کئے اور اپنی سازش کی کامیابی کے لئے حضرت علی ؓ کو بطور ہیرو منتخب کیا۔ اس کا پہلا وار یہ تھا کہ نو مسلم عجمی لوگوں کو یہ تاثر دیا کہ رسول اکرم سے قرابتداری کی بنا پر خلافت کے اصل حقدار حضرت علی ؓ تھے اور پہلے تین خلیفوں نے ان کا حق غصب کیا ہے۔ نئے مسلمان ابھی اسلامی تعلیمات سے پوری طرح آگاہ نہیں تھے، دنیا کے عام دستور وراثت و نیابت کے مطابق اس کی چال میں آگئے۔ اور دوسرا وار دین طریقت کو اسلام میں داخل کرنا تھا۔ وہ خود درویشی کے روپ میں سامنے آیا تھا۔ لہذا ظاہر اور باطن کی تفریق کرکے اور شریعت و طریقت کے رموز بتلا کر ان نو مسلموں میں دین طریقت کے ملحدانہ اور کافرانہ نظریات داخل کردیئے اور بتلایا کہ حضرت علی ؓ اللہ کی ذات کا مظہر ہیں اور اللہ ان کے بدن میں حلول کر گیا ہے۔ گویا اسلام میں حضرت علی ؓ وہ پہلے شخص ہیں جن کے متعلق حلول کا عقیدہ اپنایا گیا اور رسول اللہ ﷺ کے متعلق حلول کا عقیدہ تو بہت زمانہ بعد کی پیداوار ہے۔ عبداللہ بن سبا نے خود ایک دفعہ کوفہ میں حضرت علی ؓ کو مخاطب کرکے رمز و کتایہ کی سبان میں کہا انت ھو یعنی تو وہی ہے تو حضرت علی ؓ اس کے نظریہ کو بھانپ گئے اور اسے سخت سرزنش کی اور بعد میں اسے سزا دینے کے لئے بلابھیجا تو معلوم ہوا کہ وہ کوفہ سے راہ فرار اختیار کرچکا ہے۔ بہرحال اس نے اپنے معتقدین کی ایک جماعت تیار کرلی تھی۔ ایک دفعہ یہ لوگ علی الاعلان بازار میں کھڑے ہو کر اپنے اسی عقیدہ کا پرچار کر رہے تھے کہ حضرت علی ؓ کے غلام قنبر نے یہ باتیں سنیں تو حضرت علی ؓ کو جاکر اطلاع دی کہ کچھ لوگ آپ کو اللہ کہہ رہے ہیں۔ اور آپ میں خدائی صفات مانتے ہیں۔ آپ نے ان کو بلایا اور قوم زط کے ستر اشخاص تھے آپ نے ان سے پوچھا تم کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے رب ہیں اور خالق اور رازق ہیں آپ نے فرمایا : تم پر افسوس ! میں تو تم ہی جیسا ایک بندہ ہوں اور تمہاری طرح کھانے پینے کا محتاج ہوں۔ اگر اللہ کی اطاعت کروں گا تو مجھے اجر دے گا اور نافرمانی کروں گا تو سزا دے گا۔ لہذا تم اللہ سے ڈر جاؤ اور اس عقیدہ کو چھوڑ دو دوسرے دن قنبر نے پھر حضرت علی ؓ کو بتلایا کہ وہ لوگ پھر وہی کچھ کہہ رہے ہیں۔ آپ نے دوبارہ انھیں بلایا اور تنبیہ کی۔ لیکن پھر بھی یہ لوگ باز نہ آئے۔ تیسرے دن آپ نے انھیں بلا کر یہ دھمکی بھی دی کہ اگر تم نے پھر یہی بات کہی تو میں تم کو نہایت بڑی سزا دوں گا۔ مگر اس جماعت کا سرغنہ عبداللہ بن سبا تو ایک خاص مشن کے تحت یہ تحریک چلارہا تھا۔ لہذا یہلوگ اپنی بات پر اڑے رہے۔ آپ نے ایک گڑھا کھدوایا جس میں آگ جلائی گئی اور ان سے کہا۔ دیکھو آب بھی باز آجاؤ۔ ورنہ اس گڑھے میں پھینک دوں گا مگر وہ اپنے عقیدہ پر قائم رہے تو حضرت علی ؓ کے حکم سے آگ میں پھینک دیئے گئے (فتح الباری۔ ج
12
، ص
248
) امام بخاری نے یہ حدیث مختصراً کتاب استثبابہ نالمرتدین میں درج فرمائی ہے اور ان حلولیوں کے لئے زنادقژ کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ بھی صراحت کی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کہتے تھے کہ اگر میں حاکم ہوتا تو ان کو جلانے کے بجائے ان کے قتل پر اکتفا کرتا۔ حلول کا عقیدہ رکھنے والے وہ لوگ جو بچ رہے تھے اپنے عقیدہ میں اور بھی سخت ہوگئے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ آگ اور پانی سے عذاب دینا صرف اللہ کو سزاوار ہے اور حضرت علی ؓ نے بھی چونکہ آگ سے جلایا ہے لہذا وہ عین اللہ ہیں۔ وہ زبان سے یہ کہتے تھے کہ لا لعذب بالنار الا رب النار یعنی آگ کا رب بھی آگ سے سزا دیتا ہے عبداللہ بن سبا کا یہ عقیدہ اس کے پیروکار نصیریہ، کیسانیہ، قرمطیہ اور باطنیہ سے ہوتا ہوا صوفیاء کے اندر داخل ہوگیا حسین بن منصور حلاج) م
309
ھ ( اس عقیدہ کا علمبردار اعلیٰ تسلیم کیا جاتا ہے اور اسلام میں یہی وہ پہلا شخص ہے جس نے خود اپنی ذات کے متعلق کھل کر یہ دعویٰ کیا کہ اللہ اس کے اندر حلول کر گیا ہے۔ گویا اس سے پہلے بھی کچھ صوفیاء اس عقیدہ کے حامی اور اسے اپنے سینوں میں چھپائے رکھتے تھے، مگر عقیدہ کو شہرت دوم حلاج ہی کی ذات سے ہوئی۔ وہخود اناالحق کا دعویٰ کرا تھا سمجھانے کے باوجود جب وہ اپنے عقیدہ پر مصر رہا تو خلیفہ بغداد المقتدر باللہ نے علماء سے فتویٰ لینے کے بعد
24
ذی قعدہ
309
ھ (
914
ئ ( کو بغداد میں قتل کردیا اور اس خدا کی لاش کو جلا کر دریا میں پھینک دیا گیا اور اس کی خدائی اپنے آپ کو بھی موت اور لاش سے جلنے کے عذاب سے بچا نہ سکی۔ مگر حیرت تو اس بات پر ہے کہ حسین بن منصور کے اتنے شدید جرم کے صوفیاء کی اکثرت نے اس کے حق پر ہونے کی حمایت کی لہذا حلول کا عقیدہ آج تک مسلمانوں میں مثوارت چلا آرہا ہے۔ چناچہ امام اہل سنت رضا خان بریلوی فرماتے ہیں : سوال : حضرت منصور، تبریز اور سرمد نے ایسے الفاظ کہے جن سے خدائی ثابت ہے) یعنی یہ تینوں حضرات خدائی کے دعویدار تھے ( لیکن وہ ولی اللہ گنے جاتے ہیں۔ جبکہ فرعون، شداد، ہامان، اور نمرود نے یہی دعویٰ کیا تھا تو وہ دائمی جہنمی ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : ان کافروں نے خود کہا اور ملعون ہوئے اور انہوں نے) یعنی منصور، تبریز اور سرمد نے (خود نہ کہا۔ اس نے کہا جسے کہنا شایاں ہے۔ اور آواز بھی انہی سے مسموع ہوئی۔ جیسے حضرت موسیٰ نے درخت سے سنا۔ انی انا اژ میں ہو رب اللہ سارے جہان کا، درخت نے کہا تھا۔۔۔ بلکہ اللہ نے۔ یونہی یہ حضرات اس وقت شجر موسیٰ ہوتے ہیں ( احکام شریعت ص
93
) اس جواب میں نشان زدہ الفاظ پر اور اس کی دلیل پر غور فرمائے اور دیکھئے کہ امام اہل سنت عقیدہ حلول کی کس قسم کے اسرار و رموز سے وکالت فرما رہے ہیں۔ فرعون، شداد، نمرود اور ہامان وغیرہ کو اللہ نے جہنمی قرار دیا اور اس کی اطلاع قرآن میں دی ہے۔ حلاج و سرمد وعیرہ کو ولی تو آپ لوگ کہتے ہیں۔ عامہ نالمسلمین اور علماء نے تو منصور کو زندیق اور کافر قرار دے کر اس کے قتل کا فتویٰ صادر کیا تھا اور باقی دو کا انجام اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ ایک دوسرے مقام پر یہی امام اہل سنت فرماتے ہیں کہ حضور پرنور سیدنا غوث اعظم حضور اقدس و انور سید عالم کے وارث کامل و نائب تام آئینہ ذات ہیں کہ حضور پر نور ﷺ مع اپنی جمیع صفات جمال و جلال و کمال و افضال کے ان میں متجلی ہیں۔ جس طرح ذات عزت احدیت مع جملہ صفات و نعوت و جلالت آئینہ محمدی ﷺ میں تجلی فرما ہے ) فتاویٰ افریقہ ص
101
) گویا امام صاحب کے اس ارشاد نے واضح طور پر بتلا دیا کہ اللہ کی ذات رسول اللہ کی ذات میں جلوہ گر ہے۔ اسی طرح غوث اعظم میں رسول اللہ ﷺ کی ذات جلوہ گر ہے یہ ہے حلول کا وہ نظریہ جسے صوفیاء کے ہی ایک طبقہ نے گمراہ کن نظریہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ یہ شرک فی الصفات کے علاوہ شرک فی الذات کی بھی واضح دلیل ہے۔ اسی باطل نظریہ کے رو میں اللہ نے سورة نساء میں فرمایا : (قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَهْوَاۗءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ
77
)
5
۔ المآئدہ :
77
) اے اہل کتاب اپنے دین میں علو نہ کرو اور وہی بات کہو جو حق ہو اور سورة مائدہ میں فرمایا : (قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ ( اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو
3
۔ فرقان مبالغہ کا صیغہ ہے۔ یعنی حق و باطل کو یا کفر اور ایمان کو بالکل الگ الگ کرکے دکھلانے والا۔ اور اس سے مراد قرآن ہے۔ جس نے ایمان اور اس کے مقابلہ میں کفر و شرک اور نفاق کی ایک ایک خصلت کو یوں واضح کرکے بتلا دیا ہے کہ کچھ ابہام باقی نہیں رہتا۔ اور بعض علماء نے فرقان سے مراد حلت و حرمت کے احکام کو جدا جدا کرکے واضح طور پر بتلانے والا لیا ہے۔ اور یوم الفرقان سے مراد غزوہ بدر کا دن ہے جو حق و باطل کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ ثابت ہوئی۔
4
۔ لیکون کی ضمیر عبدہ کی طرف بھی راجع قرار دی جاسکتی ہے اور فرقان یعنی قرآن کی طرف بھی اور صاحب قرآن کی طرف بھی۔ کیونکہ قرآن اور صاحب قرآن دونوں کی دعوت ایک ہی ہے۔ قرآن مراد لینے کی صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ قرآن سب لوگوں کے لئے تاقیامت کتاب ہدایت ہے اور صاحب قرآن مراد لینے کی صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ آپ تاقیامت تمام تر لوگوں کے لئے اللہ کے رسول ہیں۔ اور قرآن ہو یا صاحب قرآن دونوں کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے برے اعمال کے برے انجام سے خبردار کیا جائے۔
Top