Taiseer-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 158
فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً١ؕ وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
فَاَخَذَهُمُ : پھر انہیں آپکڑا الْعَذَابُ : عذاب اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانی وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہیں اَكْثَرُهُمْ : ان کے اکثر مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
آخر عذاب نے انھیں آلیا 97 ۔ اس واقعہ میں بھی ایک نشانی 98 ہے مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں۔
97 اس بدبخت نے اونٹنی کی کونچیں) پاؤں کی رگیں ( تلوار وغیرہ کے حملہ کرکے کاٹ ڈالیں۔ اونٹنی نے ایک زور کی چیخ ماری اور اسی پہاڑ میں جاکر غائب ہوگئی۔ اسی طرح اس کا بچہ بھی اسی پہاڑ میں جاکر غائب ہوگیا۔ اب ان لوگوں کو عذاب کا خطرہ محسوس ہونے لگا۔ جب حالات تشویشناک ہوجائیں تو عموماً انسان کی عقل ماری جاتی ہے۔ اور وہ الٹا سوچنے لگتی ہے۔ چناچہ ان بدبختوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو بھی ٹھکانے لگانے کے لئے خفیہ مشورے شروع کردیئے۔ ان کی عقل نے یہی کام کیا کہ اگر صالح بھی نہ رہے تو شائد عذاب نہیں آئے گا ان حالات کا صالح (علیہ السلام) کو علم ہوگیا تو آپ نے انھیں بحکم الٰہی تین دن کا الٹی میٹم دے دیا کہ تین دن مزے اڑا لو۔ اعد میں تم پر عذاب آجائے گا۔ (11: 65) حضرت صالح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں کی کل تعداد ایک سو بیس تھی۔ آپ انھیں ساتھ لے کر۔۔ کی طرف ہجرت کر گئے اور رملہ کے قریب جاکر آباد ہوگئے۔ اسی مقام پر حضرت صالح (علیہ السلام) نے وفات پائی۔ 98 اس قوم پر زبردست زلزلے کا عذاب آیا۔ جس نے پہاڑوں تک جڑیں ہلا دیں۔ ان میں شگاف پڑگئے اور پتھر پر پتھر گرنے لگے جس سے ان کے بیشتر مکانات کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے اس دوران بڑی خوفناک اور کانوں کو پھاڑنے والی آوازیں بھی نکلتی تھیں۔ چناچہ اس دوہرے عذاب سے یہ بدبخت قوم صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردی گئی۔ قوم ثمود کی تباہی بھی اللہ کی سنت کے عین مطابق واقع ہوئی۔ اور اس میں بھی عبرت کے کئی اسباب پوشیدہ ہیں۔ کاش ! یہ لوگ اس واقعہ سے ہی سبق حاصل کریں۔ مگر ان لوگوں کی اکثریت ایسی ہی ہے جو ایمان لانے کی طرف نہیں آتی۔
Top