Taiseer-ul-Quran - An-Naml : 83
وَ یَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّنْ یُّكَذِّبُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَحْشُرُ : ہم جمع کریں گے مِنْ : سے كُلِّ اُمَّةٍ : ایک گروہ فَوْجًا : ایک گروہ مِّمَّنْ : سے۔ جو يُّكَذِّبُ : جھٹلاتے تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کو فَهُمْ : پھر وہ يُوْزَعُوْنَ : انکی جماعت بندی کی جائے گی
اور جس دن ہم ہر امت سے ایسے لوگوں کی ایک فوج اکٹھی کریں گے جو ہماری آیات کو جھٹلاتی تھی پھر ان کی گروہ بندی 87 کی جائے گی۔
87 اس آیت میں دآبہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کا مادہ د ب ب ہے اور دب بمعنی عام رفتار ( مشی) ہلکی یا سست رفتار سے چلنا ہے۔ اور دابہ ہر اس جاندار کو کہتے ہیں جو ہلکی چال چلتا ہو۔ خواہ وہ پیٹ کے بل چلے جیسے سانپ اور چھپکلی وغیرہ یا خواہ دو پاؤں پر چلے جیسے انسان اور بندروں کی بعض اقسام یا چار پاؤں پر چلے جیسے وحشی جانور اور چوپائے وغیرہ۔ نیز مذکر و مونث کے لئے اس کا یکساں استعمال ہوتا ہے۔ اور قرآن میں یہ لفظ دیمک کے لئے بھی آیا ہے۔ جس نے حضرت سلیمان کی وفات کے بعد ان کی لاٹھی کو چاٹ کھایا تھا اور وہ ٹوٹ گئی تھی۔ (38: 14) اس آیت میں جس دابہ کا ذکر ہے۔ معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ وہ انسان کی شکل کا یا اس سے ملتا جلتا ہوگا۔ تکلہم کا لفظ اس قیاس کی تائید کرتا ہے۔ تاہم یہ ضروری بھی نہیں۔ جس طرح اس دآبہ کا خروج خرق عادت ہوگا اسی طرح اس کا لوگوں سے کلام کرنا بھی خرق عادت ہوسکتا ہے۔ بہرحال یہ یقینی بات ہے کہ اس کا خروج علامات قرب قیامت میں سے ایک علامت ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : 1۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین باتیں جب ظاہر ہوجائیں تو اس وقت کسی کو ایمان لانے کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ الا یہ کہ وہ پہلے ایمان لاچکا ہو اور نیک اعمال کرتا رہا ہو۔ ایک سورج کا مغرب کا طلوع ہونا، دوسرے دجال کا نکالنا اور تیسرے دایہ ن الارض کا خروج ( مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب بیان الزعن الذی لایقبل فی الایمان) 2۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دابہ ن الارض نکلے گا تو اس کے پاس سلیمان کی مہر اور موسیٰ کا عصا ہوگا۔ پھر وہ ( عصائے موسیٰ سے) مومن کے منہ پر لکیر کھینچ دے گا جس سے وہ چمک اٹھے گا اور کافر کی ناک پر) سلیمان کی انگوٹھی سے ( مہر لگا دے گا۔ یہاں تک کہ سب لوگ ایک خوان پر جمع ہوں گے تو وہ یہ کہے گا کہ یہ مومن ہے اور یہ کافر ہے۔ ) یعنی مومن اور کافر ممتاز ہوجائیں گے ( ترمذی۔ ابو اب التفسیر) 3۔ حضرت حذیفہ بن اسید غفاری فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ ہم پر برآمد ہوئے جبکہ ہم گفتگو میں مشعول تھے۔ آپ نے پوچھا : کیا باتیں کر رہے تھے ؟ ہم نے عرض کیا : قیامت کا ذکر کرتے تھے : آپ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی۔ جب تک تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو۔ پھر آپ نے یہ نشانیاں بتلائیں۔ دھواں، دجال، دایہ ن الارض۔ سورج کا مغرب سے نکلنا، نزول عیسیٰ ابن مریم، یاجوج ماجوج کا خروج۔ تین مقامات پر زمین کا خیف مشرق میں، مغرب میں، جزیرہ عرب میں اور ان نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہوگی جو لوگوں کو یمن سے نکال کر ہانکتی ہوئی ان کے محشر ( سرزمین شام) کی طرف لے جائے گی ( مسلم۔ کتاب الفتن واشراط الساعہ ن) بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت سے پہلے صفا پہاڑی پھٹے گی اس میں سے ایک جانور نکلے گا جو لوگوں سے باتیں کرے گا کہ اب قیامت نزدیک نزدیک ہے اور سچے ایمان والوں اور چھپے منکروں کی نشان دے کر جدا کردے گا۔ دابہ ن الارض سے متعلق بہت سے رطب و بابس اقوال و دریات بعض تفاسیر میں درج ہیں۔ مگر معتبر روایات سے تقریباً اتنا ہی ثابت ہے جو اوپر درج ہے۔
Top