Taiseer-ul-Quran - Al-Qasas : 3
نَتْلُوْا عَلَیْكَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰى وَ فِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
نَتْلُوْا : ہم پڑھتے ہیں عَلَيْكَ : تم پر مِنْ نَّبَاِ : کچھ خبر (احوال) مُوْسٰى : موسیٰ وَفِرْعَوْنَ : اور فرعون بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ : ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں
ہم آپ کو موسیٰ 1 اور فرعون 2 کے بالکل سچے حالات پڑھ کر سناتے ہیں : ان لوگوں کے (فائدے کے) لئے جو ایمان لاتے 3 ہیں
1 قرآن کریم میں اکثر مقامات پر حض موسیٰ اور فرعون کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے اور انبیاء کے ذکر میں حضرت موسیٰ کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔ اس کی وجوہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ مختصراً یہ کہ موسیٰ کو رسول اللہ سے زیادہ شدید حالات میں فریضہ ئرسالت سرانجام دینے کا حکم ہوا تھا۔ مثلاً یہ کہ حضرت موسیٰ جس قوم بنی اسرائیل کے فرد تھے، فرعون نے انھیں اچھوتوں کی طرح کم تر درجہ کی مخلوق اور عملاً غلام بنا کر رکھا ہوا تھا۔ جبکہ آپ اپنی قوم قریش ہی کے ایک فرد تھے۔ پھر حضرت موسیٰ کو فرعون جیسے مغرور، متمرد اور سرکش، فوراً بھڑک اٹھنے والے فرمانروا کے ہاں دعوت رسالت کے لئے بھیجا گیا تھا جبکہ آپ کے مخاطبین اول آپ کی اپنی ہی قوم کے افراد تھے۔ تیسرے یہ کہ حضرت موسیٰ کو یہ بھی حکم تھا کہ دعوت توحید کے ساتھ اپنی قوم بنی اسرائیل کی رہائی کا بھی مطالبہ کریں جبکہ رسول اللہ کو ایسا کوئی حکم نہ تھاـ۔ چوتھے یہ کہ آپ فرعون کے اشتہاری مجرم تھے۔ اور اس قصہ کا انجام یہ ہوتا ہے کہ بالآخر اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی مدد کرکے انھیں فرعونیوں سے نجات دلاتے ہیں اور فرعون اور آل فرعون کو دریا میں غرق کرکے ایسے ظالموں کا صفحہ ہستی سے نام و نشان تک مٹا دیتے ہیں۔ گویا اس قصہ میں آپ کے لئے اور مسلمانوں کے لئے سبق یہ ہے کہ جب موسیٰ نے ایسے شدید حالات اور اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے سب مصائب برداشت کئے تو آپ کو بھی کرنا چاہئیں اور بشارت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس معرکہ حق و باطل میں بالآخر اپنے پیغمبر اور ایمان لانے والوں کو ہی کامیاب کرتا ہے اور ان کے دشمن تباہ ہوجاتے ہیں۔ 2 شاہان مصر کا لقب، جیسے قدیم زمانہ میں ترکوں کے بادشاہ خاقان، یمن کے بادشاہ تبع، حبشہ کے بادشاہ نجاشی، روم کے بادشاہ قیصر اور ایران کے بادشاہ کسریٰ کہلاتے تھے ایسے ہی مصر کے بادشاہ فرعون کہلاتے تھے۔ موسیٰ کو دو فرعونوں یا دو بادشاہوں سے سابقہ پڑا تھا۔ جس فرعون نے آپ کی پرورش کی تھی اس کا نام رعمیس تھا اور نبوت ملنے کے بعد جس کے ہاں آپ کو بھیجا گیا تھا وہ رعمیس کا بیٹا متطتاح تھا ـ۔ ان کا عہد حکومت تقریباً چودہ سو سال قبل مسیح ہے۔ 3 یعنی قرآن کا یہ قصہ بیان کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو بتلایا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں اور متکبروں کا آخر کیا انجام ہوتا ہے اور اللہ کے فرمانبرداروں کا کیا ؟ لیکن اس قصہ سے نصیحت، ہدایت اور سبق وہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں جو ان واقعات کو درست تسلیم کرکے اور ان میں غور و فکر کرکے ایمان لانے والے ہوں اور جو لوگ اسے محض تاریخی داستان یا افسانہ سمجھتے ہوں، انھیں اس سے کیا عبرت حاصل ہوسکتی ہے ؟
Top