Taiseer-ul-Quran - Al-Qasas : 83
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا١ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ
تِلْكَ : یہ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ : آخرت کا گھر نَجْعَلُهَا : ہم کرتے ہیں اسے لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو لَا يُرِيْدُوْنَ : وہ نہیں چاہتے عُلُوًّا : برتری فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَ : اور لَا فَسَادًا : نہ فساد وَالْعَاقِبَةُ : اور انجام (نیک) لِلْمُتَّقِيْنَ : اور انجام (نیک)
یہ آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کے لئے مخصوص کردیتے ہیں جو زمین میں بڑائی 112 یا فساد 113 نہیں چاہتے اور (بہتر) انجام تو پرہیزگاروں کے لئے ہے۔
112 عَلَوْا بمعنی سربلند، متکبر، مغرور یعنی وہ بڑا بن کر نہیں رہتے نہ دوسروں کو دبا کر رکھتے ہیں بلکہ متواضع اور منکسر المزاج بن کر اور اللہ کے فرمانبردار بن کر رہتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے آخرت کا گھر مختص ہے۔ سربلندی اور ناموری چاہنے والوں اور متکبر بن کر رہنے والوں کے لئے ہرگز نہیں ہے۔ 113 فساد کے لفظ کا اطلاق عموماً چوری، ڈاکہ، غصب، غبن لوٹ مار اور قتل و غارت کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ شرعی اصطلاح فساد فی الارض کے معنوں میں اس سے بہت زیادہ وسعت ہے یعنی وہ کام جس میں انسان اپنے حق سے تجاوز کر رہا ہو یا دوسرے کے حق پامال کررہا ہو وہ فساد فی الارض کے ضمن میں آئے گا۔ قارون کے قصہ میں اللہ نے قارون کو فساد فی الارض کا مجرم قرار دیا ہے۔ حالانکہ وہ نہ چوری کرتا تھا نہ لوٹ مار، نہ قتل و غارت ان میں سے کوئی کام بھی نہیں کرتا تھا۔ اس کا فساد فی الارض یہ تھا کہ اس کے مال میں دوسروں کا حق شامل تھا وہ اسے ادا نہیں کر رہا تھا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص دھوکے سے یا جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال بیچ رہا ہے۔ تو اگرچہ معاشرہ اسے فسادی نہیں سمجھتا لیکن شرعی لحاظ سے وہ فسادی ہے۔ کیونکہ اس نے فریب یا جھوٹی قسم کے ذریعہ چیز کی اصل قیمت سے زیادہ وصول کرکے خریدار کو نقصان پہنچایا یا اس کا حق غصب کیا ہے گویا فساد سے مراد انسانی زندگی کے نظام کا وہ بگاڑ ہے جو حق سے تجاوز کرنے کے نتیجہ میں لازماً رونما ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر احکام الٰہی سے تجاوز کرتے ہوئے انسان جو کچھ بھی کرتا ہے وہ فساد ہی فساد ہے اور سب سے بڑا فساد اللہ کی حق تلفی یا شرک ہے۔
Top