Taiseer-ul-Quran - Al-Qasas : 86
وَ مَا كُنْتَ تَرْجُوْۤا اَنْ یُّلْقٰۤى اِلَیْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِیْرًا لِّلْكٰفِرِیْنَ٘
وَمَا كُنْتَ : اور تم نہ تھے تَرْجُوْٓا : امید رکھتے اَنْ يُّلْقٰٓى : کہ اتاری جائے گی اِلَيْكَ : تمہاری طرف الْكِتٰبُ : کتاب اِلَّا : مگر رَحْمَةً : رحمت مِّنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب فَلَا تَكُوْنَنَّ : سو تو ہرگز نہ ہوتا ظَهِيْرًا : مددگار لِّلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے
آپ کو ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ یہ کتاب 118 (قرآن) آپ پر نازل کی جائے گی۔ یہ تو صرف اللہ کی مہربانی ہے۔ لہذا آپ ہرگز کافروں کے مددگار نہ بنئے۔ 119
118 اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کسی نبی کو بھی نبوت ملنے سے پہلے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اسے نبوت عطا ہوگی۔ حضرت موسیٰ کو نبوت عطا ہونے کا واقعہ قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ کہ کس طرح وہ ایک اندھیری اور ٹھنڈی رات کو راہ بھولے ہوئے آگ کی تلاش میں نکلے گئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلا کر نبوت سے سرفراز کردیا۔ بالکل یہ صورت حال آپ سے بھی غار حرا میں پیش آئی تھی۔ پہلی وحی کے بعد آپ گھبرائے ہوئے گھر پہنچے اور کہا : مجھے کپڑا اوڑھا دو ، کپڑا اوڑھا دو پھر جب ذرا گھبراہٹ دور ہوئی تو آپ نے حضرت خدیجہ سے غار حرا کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ (إنِّیْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِی) یعنی مجھے تو اپنی جان کا بھی خطرہ پڑگیا تھا پھر حضرت خدیجہ آپ کو ساتھ لے کر اپنے خالہ زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو ایک نصرانی عالم اور نیک سیرت انسان تھے۔ انہوں نے آپ کو بتلایا کہ یہ تو وہی فرشتہ ہے جو موسیٰ پر نازل ہوتا تھا (بخاری۔ کتاب الوحی۔ باب کیف بدا الوحی) دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہر دور کا نبی اپنے دور کا بہترین انسان ہوتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ اسے نبوت کے لئے منتخب فرماتا ہے۔ نبوت عطا ہونے کے بعد اس کے فضل و شرف میں مزید اضافہ ہوجاتا اور ہوتا رہتا ہے۔ شریعت کا ایک اصول یہ ہے۔ (الدال علی الخیر کفاعلہ) یعنی بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا اس کے کرنے والے کی طرح ہی ہوتا ہے ۔ بمعنی اسے بھی اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا کرنے والے کو ملتا ہے۔ اس لحاظ سے ہر نبی اپنی امت کے نیک اعمال بجا لانے والوں کے برابر کے اجر کا مستحق ہوتا ہے اور یہ اس کا اضافہ اجر ہوتا ہے۔ اور رسول اللہ کی امت چونکہ تمام انبیاء سے زیادہ ہے لہذا تمام انبیاء پر آپ کی افضلیت بھی ثابت ہوگئی۔ یہی وہ فضل و شرف ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَكَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا 113۔ ) 4 ۔ النسآء :113) اور اللہ تعالیٰ کا آپ پر یہ فضل کہ آپ کو نبوت بھی عطا کی گئی اور کتاب بھی دی گئی ایسا فضل تھا جس کی آپ کو بالکل توقع نہیں تھی۔ 119 یعنی اگر آپ کی قوم قریش اور آپ کے بھائی بند اور رشتہ دار دین کے معاملہ میں آپ کا ساتھ نہیں دے رہے بلکہ مخالفت پر اتر آئے ہیں تو اب نہ انھیں اپنا رشتہ دار سمجھو اور نہ کسی بھی معاملہ میں ان کا ساتھ دو یا ان کی حمایت کرو۔ آپ کی مدد اور حمایت کے اب وہی لوگ مستحق ہیں۔ جو آپ پر ایمان لا کر آپ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اور اللہ نے آپ پر جو اتنی بڑی مہربانی فرمائی ہے تو اس کے شکریہ کے طور پر آپ دین کے معاملہ میں اپنی قوم کی رعایت اور خاطر ہرگز نہ کیجئے۔ اور نہ ہی اپنے آپ کو ان میں کا ایک فرد شمار کیجئے۔ ہاں ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت ضرور دیتے رہئے مگر احکام الٰہی میں قرابت داری کی بنا پر کوئی لچک نہ رہنے دیجئے۔
Top