Taiseer-ul-Quran - Al-Ankaboot : 36
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا١ۙ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ
وَ : اور اِلٰى مَدْيَنَ : مدین کی طرف اَخَاهُمْ : ان کا بھائی شُعَيْبًا : شعیب کو فَقَالَ : پس اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَارْجُوا : اور امید وار رہو الْيَوْمَ الْاٰخِرَ : آخرت کا دن وَ : اور لَا تَعْثَوْا : نہ پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مُفْسِدِيْنَ : فساد کرتے ہوئے (مچاتے)
اور مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ انہوں نے کہا : اے میری قوم ! اللہ کی عبادت 54 کرو اور آخرت کے دن 55 کی توقع رکھو اور ملک میں فساد نہ مچاتے 56 پھرو۔
54 حضرت شعیب اہل مدین کی طرف بھی مبعوث ہوئے تھے اور اصحاب ایکہ کی طرف بھی۔ اور یہ دونوں علاقے آس پاس تھے۔ شعیب نے پہلی بات یہی کی کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور شرک ایسا مرض ہے جو تمام انبیاء کی قوموں میں پایا جاتا ہے۔ شیطان ہر دور میں انسان کی شرک کی نئی سے نئی شکلیں سمجھاتا رہتا ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ خالص اللہ کی عبادت سے برگشتہ کرکے کسی نہ کسی طرح کے شرک میں مبتلا کردے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کی دعوت کا بھلا قدم یہی ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو شرک کی نجاستوں سے لوگوں کو مطلع کریں۔ اور انھیں ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلائیں۔ 55 اس جملہ کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ آخرت کے دن پر ایمان لاؤ وہ یقیناً آنے والا ہے۔ جس میں تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس ہوگی۔ دوسرا یہ کہ اگر تم خالصتاً اللہ کی عبادت کرو گے۔ تو تمہیں آخرت کے دن اس کے اچھے اجر کی توقع رکھنا چاہئے۔ 56 اہل مدین کا فساد فی الارض یہ تھا کہ وہ اپنے لین دین کے معاملات دغا بازیاں کرتے تھے۔ ناپ تول میں کمی بیشی کرنے کے فن میں خوب ماہر تھے اور اس طرح دوسرے لوگوں کے حقوق پر ضدبانہ ڈاکے ڈالتے تھے۔
Top