Taiseer-ul-Quran - Al-Ankaboot : 51
اَوَ لَمْ یَكْفِهِمْ اَنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ یُتْلٰى عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً وَّ ذِكْرٰى لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
اَوَلَمْ يَكْفِهِمْ : کیا ان کے لیے کافی نہٰن اَنَّآ اَنْزَلْنَا : کہ ہم نے نازل کی عَلَيْكَ : آپ پر الْكِتٰبَ : کتاب يُتْلٰى : پڑھی جاتی ہے عَلَيْهِمْ ۭ : ان پر اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَرَحْمَةً : البتہ رحمت ہے وَّذِكْرٰي : اور نصیحت لِقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان لاتے ہیں
کیا انھیں یہ کافی نہیں کہ ہم نے ان پر یہ کتاب نازل 83 کی ہے جو انھیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ اس میں ایمان لانے والوں کے لئے یقینا رحمت اور نصیحت ہے۔
83 یعنی پہلے انبیاء کو جتنے معجزات عطا کئے جاتے رہے وہ سب وقتی اور عارضی تھے جو کسی نے دیکھے کسی نے نہ دیکھے اور آج وہ سب ختم ہوچکے ہیں۔ لیکن یہ قرآن ایسا زندہ جاوید معجزہ ہے جس کی اعجازی کی تم خود بھی تسلیم کرتے ہو۔ پھر اور کون سا معجزہ چاہتے ہو ؟ پھر یہ کتاب اس لحاظ سے سب کے لئے اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ وہ تمہاری زندگی کے ہر پہلو میں تمہاری ٹھیک ٹھیک راہنمائی بھی کرتی ہے۔ ربط مضمون کے لحاظ سے اس آیت کے مخاطب کفار ہیں اور اس کا وہی مطلب ہے جو اوپر بیان ہوا تاہم اس کے مخاطب مسلمان بھی ہیں۔ انھیں بھی اس کتاب کی موجودگی میں کسی اور کتاب ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔ خواہ وہ کوئی سابقہ آسمانی کتاب ہی کیوں نہ ہو۔ چناچہ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ رسول اللہ کے پاس تورات کے کچھ اوراق لائے اور انھیں پڑھنا شروع کیا۔ آپ کا چہرہ متغیر ہو رہا تھا۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت عمر ؓ سے کہا کہ تم رسول اللہ کے چہرہ کی طرف نہیں دیکھتے ؟۔ حضرت عمر ؓ نے آپ کو دیکھا تو کہنے لگے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے پناہ مانگتا ہوں، ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور آپ کے نبی ہونے پر راضی ہوگئے۔ اس پر آپ کا غصہ فرو ہوگیا اور آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے کہ اگر آج موسیٰ ظاہر ہوجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر اس کی پیروی کرو تو تم گمراہ ہوجاؤ گے۔ اور آج اگر موسیٰ زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو میری اتباع کے سوا انھیں کوئی چارہ نہ ہوتا (مشکوۃ۔ کتاب الایمان۔ باب الاعتصام بالکتاب والسنہ۔ الفصیل الثالث)
Top