Taiseer-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 117
مَثَلُ مَا یُنْفِقُوْنَ فِیْ هٰذِهِ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَثَلِ رِیْحٍ فِیْهَا صِرٌّ اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَاَهْلَكَتْهُ١ؕ وَ مَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ وَ لٰكِنْ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
مَثَلُ : مثال مَا : جو يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں فِيْ : میں ھٰذِهِ : اس الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا كَمَثَلِ : ایسی۔ جیسے رِيْحٍ : ہوا فِيْھَا : اس میں صِرٌّ : پالا اَصَابَتْ : وہ جا لگے حَرْثَ : کھیتی قَوْمٍ : قوم ظَلَمُوْٓا : انہوں نے ظلم کیا اَنْفُسَھُمْ : جانیں اپنی فَاَھْلَكَتْهُ : پھر اس کو ہلاک کردے وَمَا ظَلَمَھُمُ : اور ظلم نہیں کیا ان پر اللّٰهُ : اللہ وَلٰكِنْ : بلکہ اَنْفُسَھُمْ : اپنی جانیں يَظْلِمُوْنَ : وہ ظلم کرتے ہیں
یہ کافر لوگ جو کچھ اس دنیوی زندگی میں خرچ کرتے ہیں (صدقہ خیرات وغیرہ) اس کی مثال اس ہوا کی سی ہے جس میں پالا ہو اور یہ ہوا ایسے لوگوں کی کھیتی پر جا پہنچے، جنہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہو اس کھیتی کو تباہ کر ڈالے۔105 ایسے لوگوں پر اللہ ظلم نہیں کرتا بلکہ وہ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
105 یہ دنیا دارالعمل ہے اور آخرت دارالجزا ہے۔ اس دنیا میں انسان جو کچھ بوئے گا وہ عالم آخرت میں کاٹے گا۔ مگر دنیا میں بوئی ہوئی کھیتی کی بار آوری کے لیے چند شرائط ہیں۔ ان شرائط کو اگر ملحوظ نہ رکھا جائے تو کھیتی کبھی بار آور نہ ہوگی اور وہ شرائط ہیں۔ اللہ اور روز آخرت پر ایمان، خلوص نیت یعنی اس میں ریا کا شائبہ تک نہ ہو اور جو کام کیا جائے خالص اللہ کی رضا مندی کے لیے کیا جائے اور تیسرے اتباع کتاب و سنت یعنی وہ کام یا صدقہ و خیرات جو شریعت کی بتلائی ہوئی ہدایت کے مطابق کیا جائے۔ ان میں سے اگر کوئی چیز بھی مفقود ہوگی تو آخرت میں کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ اس آیت میں جن کافروں کے متعلق کہا گیا ہے کہ انہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔ ان میں یہ تینوں شرائط ہی مفقود ہوتی ہیں۔ کافر تو وہ کہلاتے ہی اس لیے ہیں کہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور یہی اپنے آپ پر سب سے بڑا ظلم ہوتا ہے یا اگر اپنے خیال کے مطابق ایمان رکھتے بھی ہیں تو وہ اللہ کے ہاں مقبول نہیں اور چونکہ ان کا روز آخرت پر ایمان نہیں ہوتا۔ لہذا وہ جو بھی خرچ کریں گے وہ محض نمائش اور اپنی واہ واہ کے لیے کریں گے اور شریعت محمدیہ کی ہدایات کی اتباع کا یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تو پھر آخرت میں بھلا انہیں ایسے اعمال کا کیا بدلہ مل سکتا ہے۔ ان کے نیک اعمال کی کھیتی کو ان کے کفر کی کہر نے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا تو اب آخرت میں انہیں کیا بدلہ ملے گا ؟ سورة بقرہ کی آیت نمبر 263 میں لوگوں کے دکھلاوے کی خاطر خرچ کرنے والے کی یہ مثال بیان کی گئی کہ جیسے ایک صاف چکنے پتھر پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور اس مٹی میں کوئی شخص بیج بو دے، پھر زور کی بارش آئے تو دانہ اور مٹی ہر چیز کو بہا کرلے جائے اور پتھر چکنے کا چکنا باقی رہ جائے اور یہاں یہ مثال بیان کی گئی ہے کہ کھیتی تو اگ آئی مگر اس پر ایسی شدید ٹھنڈی ہوا چلی جس نے اس کھیتی کو بھسم کرکے رکھ دیا۔ ماحصل دونوں مثالوں کا ایک ہی ہے کہ ایسے کافروں اور ریا کاروں کو آخرت میں ان کے صدقہ و خیرات کا کچھ بھی اجر نہیں ملے گا۔ کیونکہ ان کی کھیتی تو دنیا میں ہی تباہ و برباد ہوچکی اور جو کام انہوں نے آخرت کے لیے کیا ہی نہ تھا اس کی انہیں جزا کیسے مل سکتی ہے ؟
Top