Taiseer-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 188
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اَتَوْا وَّ یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
لَا تَحْسَبَنَّ : آپ ہرگز نہ سمجھیں الَّذِيْنَ : جو لوگ يَفْرَحُوْنَ : خوش ہوتے ہیں بِمَآ : اس پر جو اَتَوْا : انہوں نے کیا وَّيُحِبُّوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يُّحْمَدُوْا : ان کی تعریف کی جائے بِمَا : اس پر جو لَمْ يَفْعَلُوْا : انہوں نے نہیں کیا فَلَا : پس نہ تَحْسَبَنَّھُمْ : سمجھیں آپ انہیں بِمَفَازَةٍ : رہا شدہ مِّنَ : سے الْعَذَابِ : عذاب وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
جو لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہوتے ہیں۔ اور چاہتے یہ ہیں کہ ان کی ایسے کاموں پر تعریف کی جائے جو انہوں نے کیے 188 بھی نہیں، ان کے متعلق یہ گمان نہ کیجئے کہ وہ عذاب سے نجات پاجائیں گے، ان کے لیے تو درد ناک عذاب ہے
188 اس آیت کے شان نزول کے سلسلے میں مندرجہ ذیل تین احادیث ملاحظہ فرمائیے یہ تینوں حدیثیں بخاری شریف میں مذکور ہیں۔ 1۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ آپنے یہود کو بلا بھیجا اور ان سے دین کی کوئی بات پوچھی۔ انہوں نے حق چھپایا اور غلط بات بتلادی۔ پھر سمجھے کہ ہم (نے کمال کیا) آپ کے نزدیک قابل تعریف ٹھہرے یعنی آپ کو بتلایا بھی اور حق بات چھپا بھی لی۔ پھر یہی آیت پڑھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) 2۔ مروان نے اپنے دربان رافع کو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے پاس بھیجا کہ اس آیت کا مطلب پوچھ کے آؤ، کیونکہ اس آیت کی رو سے ہر شخص عذاب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ کیونکہ ہر شخص کو جو نعمت ملی، یا وہ جو کرتا ہے۔ اس پر خوش ہوتا ہے اور وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے ناکردہ کام پر اس کی تعریف کی جائے۔ چناچہ رافع ابن عباس ؓ کے پاس آئے تو ابن عباس ؓ نے فرمایا : تم مسلمانوں کا اس سے کیا تعلق ؟ پھر انہوں نے اس سے پہلی آیت ساتھ ملا کر پڑھی اور کہا کہ یہ ان یہودیوں کے حق میں ہے۔ جنہیں آپ نے بلا کر ان سے کوئی بات پوچھی تو انہوں نے حق بات تو چھپا دی اور کوئی غلط بات بتلا دی پھر یہ سمجھے کہ وہ ان کے نزدیک قابل تعریف ٹھہرے (یعنی آپ کو بتلا بھی دیا اور حق بھی چھپالیا) پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) 3۔ حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ آپ کے زمانہ میں چند ایسے منافق تھے کہ جب آپ جہاد پر جاتے تو وہ پیچھے رہ جاتے اور خوش ہوتے۔ پھر جب آپ واپس آتے تو قسمیں کھا کر طرح طرح کے بہانے بناتے اور یہ بات انہیں اچھی لگتی تھی کہ ان کے ناکردہ کاموں پر ان کی تعریف ہو۔ انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ان میں سے حدیث نمبر 1 اور 2 کے راوی ابن عباس ؓ ہیں اور اس آیت کو یہود سے متعلق بتلاتے ہیں اور حدیث 3 کے راوی ابو سعید خدری ہیں اور وہ اس آیت کو منافقین سے متعلق بتلاتے ہیں۔ ربط مضمون کے لحاظ سے پہلی دو احادیث راجح معلوم ہوتی ہیں۔ کیونکہ پیچھے یہود کی کرتوتوں کا ذکر چل رہا ہے۔ تاہم اس مضمون میں منافقین تو کیا خود مسلمانوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ یعنی جو شخص بھی ایسی شہرت پسند کرتا ہو کہ فلاں آدمی بڑا مخلص، دیانتدار، ایثار پیشہ خادم خلق اور عالم دین ہے یا ان میں سے کسی بھی صفت کی شہرت چاہتا ہو جبکہ حقیقت میں معاملہ ایسا نہ ہو یا کسی نے اچھے کام میں محنت تو تھوڑی ہی کی مگر شہرت اور ناموری اس سے بہت زیادہ چاہتا تو اس کا وہی حشر ہوگا جو اس آیت میں مذکور ہے۔
Top