Taiseer-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 191
الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا١ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يَذْكُرُوْنَ : یاد کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ قِيٰمًا : کھڑے وَّقُعُوْدًا : اور بیٹھے وَّعَلٰي : اور پر جُنُوْبِھِمْ : اپنی کروٹیں وَيَتَفَكَّرُوْنَ : اور وہ غور کرتے ہیں فِيْ خَلْقِ : پیدائش میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین رَبَّنَا : اے ہمارے رب مَا : نہیں خَلَقْتَ : تونے پیدا کیا هٰذَا : یہ بَاطِلًا : بےفائدہ سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے فَقِنَا : تو ہمیں بچا لے عَذَابَ : عذاب النَّارِ : آگ (دوزخ)
جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں 190 اللہ کو یاد کرتے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں سوچ بچار کرتے 191 (اور پکار اٹھتے) ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ! تو نے یہ سب کچھ بےمقصد 192 پیدا نہیں کیا تیری ذات اس سے پاک ہے۔ پس (اے پروردگار) ! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے
190 اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عقلمند صرف وہ لوگ ہیں جو اس کارخانہ قدرت میں غور کرنے کے بعد اللہ کی بےپناہ قدرت و تصرف کی حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھر اس اعتراف حقیقت کے نتیجہ میں ان کے بدن کارواں رواں محبت الٰہی میں سرشار ہو کر اس کی حمد وثناء کرنے لگتا ہے اور ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے اور اس کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں۔ لیکن جو لوگ اس کارخانہ قدرت میں غورو فکر کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچیں کہ یہ عالم مادہ سے بنا ہے۔ پھر اتفاق سے یوں ہوگیا، پھر اتفاق سے یوں ہوگیا اور اس مضبوط و مربوط نظام کائنات کو محض اتفاقات کا نتیجہ کا قرار دیتے ہیں، وہ ہرگز اہل عقل نہیں ہیں۔ کیونکہ اتفاق سے کبھی کبھار تو خیر پیدا ہوسکتی ہے لیکن مسلسل خیر کبھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ اس کائنات کی ہر ایک چیز نہایت خوبی کے ساتھ اپنے اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ گویا اس آیت اور اس جیسی دوسری آیات میں دہریت اور نیچریت کا رد موجود ہے۔ 191 اس کائنات کے نظام میں غور و فکر کرنے سے اہل عقل پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوجاتی ہے کہ اس کائنات میں ایک انسان ہی ایسی مخلوق ہے جسے عقل اور تمیز عطا کی گئی ہے۔ اسے اللہ نے تصرف کے کچھ اختیارات بھی دیئے ہیں اور اخلاقی حس بھی پیدا کی ہے۔ لہذا یہ بات سراسر عقل اور حکمت کے خلاف ہے کہ اس سے اس کی دنیا کی زندگی کے بارے میں باز پرس نہ ہو اور اسے نیکی پر جزا اور بدی پر سزا نہ دی جائے، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انسان عمر بھر ظلم و ستم کئے جاتا ہے۔ لوگوں کو پریشان بھی کرتا ہے۔ ان کے حقوق بھی غصب کرتا ہے۔ لیکن اسے اس دنیا میں کوئی سزا نہیں ملتی۔ اسی طرح بعض دفعہ ایک نیک طبع اور دیندار انسان کی ساری عمر سختیاں اور مصائب برداشت کرتے اور تنگی و تنگ دستی کے عالم میں گزر جاتی ہے اور اسے کبھی راحت میسر نہیں آتی اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے عدل کے خلاف ہے۔ اس سے ایک عقلمند انسان لازماً یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ اس دنیا کی زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہونی چاہئے۔ جس میں ہر ایک کو اس کے کئے کا بدلہ دیا جاسکے۔ اس طرح انہیں اخروی زندگی کا یقین حاصل ہوجاتا ہے اور وہ اللہ کی گرفت سے پناہ مانگنے لگتے ہیں۔ 192 باطل کی ضد حق ہے اور جس طرح حق کا لفظ وسیع المعنی ہے۔ اسی طرح باطل کے بھی بہت سے معنی ہیں۔ مثلاً باطل بمعنی جھوٹ، جھوٹی بات، بہتان، عبث، بےکار، بےمقصد ہے۔ اس آیت میں بتلایا جارہا ہے کہ یہ کائنات بےمقصد پیدا نہیں کی گئی۔ جیسا کہ مادہ پرستوں، دہریوں اور نیچریوں کا خیال ہے کہ مادہ کے اجزا باہم ملتے گئے اور کائنات کی ایک ایک چیز وجود میں آتی گئی۔ ہائیڈروجن کے ذرات ملے تو سورج پیدا ہوگیا اور وہ خود بھی گھومنے لگا۔ پھر اس سے ایک حصہ کٹ کر علیحدہ ہوا تو وہ زمین بن گئی۔ زمین نے جب گھومنا شروع کیا تو اس کا ایک حصہ کٹ کر علیحدہ ہوا تو وہ چاند بن گیا اور اسی طرح دوسرے سیارے وجود میں آتے گئے اور انہی اتفاقات سے کائنات سے ایک ایک چیز بن گئی۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ جس طرح کائنات کی ہر چیز جیسے اتفاق سے بنتی گئی۔ اسی طرح تباہ ہوجائے گی اور تباہی کے بعد پھر اجزا ملنے شروع ہوجائیں گے اور یہ سلسلہ یوں ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلتا رہے گا۔ (وقس علیٰ ھٰذا من الخرافات) گویا ان کے خیال میں یہ کائنات محض ایک تماشا گاہ اس کی مختلف صورتوں اور اتفاقات کا کھیل ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے یہ بتلایا کہ پوری کائنات تو درکنار، کائنات کی کوئی چیز بھی بےکار پیدا نہیں کی گئی۔ بلکہ با مقصد طور پر پیدا کی گئی ہے۔ قرآن کی تصریحات کے مطابق زمین اور اس کی جملہ اشیاء شمس و قمر اور ستارے سب انسان کی خدمت کے لیے بنائے گئے ہیں اور اس کی خدمت پر مامور ہیں۔ زمین سے انسان کی ہر طرح کی جسمانی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ سورج اور اس کی گردش سے رات دن پیدا ہوتے، موسم بنتے اور فصلیں پکتی ہیں۔ چاند سے رات کو روشنی اور ٹھنڈک ملتی ہے اور پھلوں میں رس پیدا ہوتا ہے۔ ستاروں سے ہم رات کے اوقات کی تعیین کرتے، روشنی حاصل کرتے اور رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور پھر یہ آسمان کی زینت بھی ہیں۔ یہی صورت ہواؤں اور بادلوں کی ہے۔ اب دیکھئے ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ہو تو انسان کا جینا محال ہوجاتا ہے لیکن اگر کائنات میں انسان نہ ہو تو ان چیزوں کے استقلال میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اس بات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کا مقصد انسان کی خدمت ہے اور غالباً یہی وہ باشعور و باختیار مخلوق ہے۔ جسے سب چیزوں کے بعد پیدا کیا ہے۔ لہذا یہ کائنات یونہی بےمقصد نہیں بلکہ ایک نہایت اہم مقصد کے ساتھ وجود میں لائی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کبھی کوئی چیز بےمقصد پیدا نہیں فرماتا، اس کی ذات اس سے پاک ہے۔ اب اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ تو انسان کے لیے ہے تو پھر انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ تو اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا۔ ( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ 56؀) 51 ۔ الذاریات :56) یعنی میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ اور عبادت کا مفہوم اس قدروسیع اور جامع ہے کہ اس میں ہر طرح کے شرک کا رد، توحید کی اہمیت، قانون جزا و سزا، جنت و دوزخ بلکہ پوری کی پوری شریعت اس میں آجاتی ہے۔ کائنات، کائنات کا خالق اور اس کائنات میں انسان کا مقام، یہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کی حقیقت معلوم کرنے اور ان کا صحیح تعین کرنے پر اہل عقل و خرد ابتدائے آدم سے لے کر غور و فکر کرتے رہے ہیں۔ پھر جس کسی سائنسدان یا فلاسفر نے بھی وحی الٰہی سے بےنیاز ہو کر سوچنا شروع کیا تو اکثر اس کی عقل نے ٹھوکر ہی کھائی ہے۔
Top