Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Taiseer-ul-Quran - Al-Ahzaab : 40
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠ ۧ
مَا كَانَ
: نہیں ہیں
مُحَمَّدٌ
: محمد
اَبَآ
: باپ
اَحَدٍ
: کسی کے
مِّنْ رِّجَالِكُمْ
: تمہارے مردوں میں سے
وَلٰكِنْ
: اور لیکن
رَّسُوْلَ اللّٰهِ
: اللہ کے رسول
وَخَاتَمَ
: اور مہر
النَّبِيّٖنَ ۭ
: نبیوں
وَكَانَ
: اور ہے
اللّٰهُ
: اللہ
بِكُلِّ شَيْءٍ
: ہر شے کا
عَلِيْمًا
: جاننے والا
محمد ﷺ تمہارے مردوں میں کسی کے باپ
64
نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول
65
اور خاتم النبیٖن
66
ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز
67
کو خوب جاننے والا ہے
64
معترضین کے اس نکاح کے بارے میں اعتراضات :۔ اس جملے میں دشمنان اسلام کے اس طعن کی تردید ہے کہ محمد ﷺ نے اپنے بیٹے کی مطلقہ بیوی یعنی اپنی بہو سے نکاح کرلیا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ زید کے باپ ہیں ہی نہیں اور ایک زید ہی کیا کسی بھی مرد کے باپ نہیں۔ یعنی ان کی کوئی اولاد ایسی نہیں جو جوان ہو اور مرد کہلائے جانے کے قابل ہو۔ واضح رہے کہ رسول اللہ کے دو بیٹے قاسم اور طیب (جنہیں طاہر بھی کہا جاتا ہے) فوت ہوچکے تھے اور ابراہیم ابھی پیدا ہی نہ ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ حسن اور حسین آپ کے نواسے تھے۔ جنہیں آپ نے اپنا بیٹا بھی فرمایا مگر ایک تو وہ حقیقی بیٹے نہ تھے۔ دوسرے وہ بھی کمسن تھے جنہیں مرد نہیں کہا جاسکتا۔
65
ہنگامہ بپا کرنے والوں کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اگر زید کی مطلقہ بیوی سے آپ کا نکاح جائز بھی تھا تو کیا یہ ضروری تھا کہ آپ اس سے نکاح کرتے۔ یہ بات ویسے بھی کہی جاسکتی تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ انھیں تو وہ کام بہرحال کرنا ہوتا ہے جو اللہ کا حکم ہو اور اللہ کا حکم یہی ہے کہ اس بری رسم کی اصلاح کا آغاز نبی کی ذات سے کیا جائے۔
66
ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ محمد ﷺ کے بعد کوئی رسول تو کیا کوئی نبی بھی آنے والا نہیں۔ لہذا آپ کے بعد اس برے دستور کی اصلاح ممکن ہی نہ تھی۔ لہذا ضروری تھا کہ آپ خود اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرتے تاکہ دوسرے مسلمانوں کے لئے یہ راستہ ہموار ہوجائے اور انھیں ایسا کرنے میں کوئی پریشانی لاحق نہ ہو۔ تاہم یہ جملہ ایک ٹھوس حقیقت پر مبنی ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے : (
1
) عامر الشعبی کہتے ہیں کہ رسول اللہ کا کوئی بیٹا زندہ نہ رہا تاکہ اس آیت کا مضمون صادق آجائے کہ آپ کسی کے باپ نہیں۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) (
2
) آپ خاتم النبییّن ہیں :۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : میری اور اگلے پیغمبروں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا۔ اس کو خوب آراستہ پیراستہ کیا۔ مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس میں آتے جاتے اور تعجب کرتے ہیں کہ اس اینٹ کی جگہ کیوں چھوڑ دی۔ وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبییّن ہوں ۔ بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب خاتم النبیّین ) (
3
) سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : بنی اسرائیل پر نبی حکومت کیا کرتے جب ایک نبی فوت ہوجاتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی ہوتا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ البتہ میرے بعد کثرت سے خلفاء پیدا ہوں گے (بخاری۔ کتاب الانبیاء۔ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل) (مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب الامر بالوفاء ببیعۃ الخلفائ) (
4
) سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ : آپ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک دو گروہ آپس میں نہ لڑیں۔ دونوں میں بڑی جنگ ہوگی اور دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس کے قریب چھوٹے دجال ظاہر نہ ہو یعنی ان میں سے ہر ایک یہی کہے گا کہ میں اللہ کا رسول ہوں (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب علامات النبوت فی الاسلام) (
5
) اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب :۔ سیدنا ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ آپ کے زمانہ میں مسیلمہ کذاب مدینہ آیا اور کہنے لگا : اگر محمد اپنے بعد مجھے اپنا جانشین بنائیں تو میں ان کی تابعداری کرتا ہوں اور مسیلمہ کذاب اپنے ساتھ بہت سے لوگوں کو بھی لایا تھا۔ آپ اس کے پاس چلے گئے اور آپ کے ساتھ ثابت بن قیس (بن شماس۔ خطیب انصار) بھی تھے۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپ نے مسیلمہ سے مخاطب ہو کر فرمایا : اگر تم محمد سے یہ چھڑی بھی مانگو تو میں نہیں دوں گا۔ (جانشینی تو دور کی بات ہے) اور اللہ نے جو کچھ تیری تقدیر میں لکھ دیا ہے تو اس سے بچ نہیں سکتا۔ اور تو اسلام نہ لائے گا اور اللہ تجھے تباہ کردے گا۔ اور میں تو سمجھتا ہوں کہ تو وہی دشمن ہے جس کا حال مجھے اللہ تعالیٰ (خواب میں) دکھا چکا ہے۔ اور یہ ثابت بن قیس میری طرف سے تمہیں جواب دے گا یہ کہہ کر آپ واپس چلے گئے۔ سیدنا ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ ؓ سے آپ کے ارشاد کا مطلب پوچھا تو ابوہریرہ ؓ نے مجھے بتایا کہ آپ نے فرمایا : ایک دفعہ میں سویا ہوا تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن ہیں۔ تو میں بہت پریشان ہوگیا۔ خواب ہی میں مجھے حکم دیا گیا کہ ان پر پھونک مارو میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں اڑ گئے۔ میں نے اس کی یہ تعبیر سمجھی کہ میرے بعد دو جھوٹے شخص پیغمبری کا دعویٰ کریں گے ان میں سے ایک اسود عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ کذاب۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب وفد بنی حنیفۃ۔۔ ) (
6
) سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : تم سے پہلے اگلی امتوں میں ایسے لوگ گزرے ہیں جن کو اللہ کی طرف سے الہام ہوتا تھا۔ اگر میری امت سے کوئی ایسا ہو تو وہ عمر بن خطاب ہوتے (حوالہ ایضاً ) اور قیامت کے قریب سیدنا عیسیٰ کا نزول ہوگا تو وہ یہاں رسول اللہ کے امتی بن کر رہیں گے۔ اور آپ ہی کی شریعت کی اتباع کریں گے علاوہ ازیں نبی ہونے کی حیثیت سے بھی ان کا شمار رسول اللہ سے پہلے کے انبیاء میں ہے۔ وہ کوئی نیا دعویٰ نہیں کریں گے۔ ختم نبوت اور آپ کے بعد وحی کے انقطاع کا مسئلہ ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام امت کا اجماع ہوچکا ہے۔ اس آیت، ان صریح احادیث صحیحہ اور اجماع کے علی الرغم قادیان ضلع گورداسپور میں ایک شخص مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ ہم یہاں مختصراً اس کے اس دعویٰ کا جائزہ لینا چاہتے ہیں : (
1
) مرزا صاحب پہلے خود بھی ختم نبوت کے قائل اور نبوت کا دعویٰ کرنے والے کو کافر سمجھتے تھے۔ چناچہ حمامۃ البشریٰ میں لکھتے ہیں کہ بھلا نبی کریم کے بعد نبی آئے تو کیسے آئے جبکہ آپ کی وفات کے بعد وحی بند ہوچکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم کے ساتھ نبیوں کو ختم کردیا ہے (حمامۃ البشرٰی
20
) پھر اسی کتاب کے صفحہ
79
پر لکھتے ہیں کہ مجھے یہ بات زیبا نہیں کہ میں نبوت کا دعویٰ کرکے اسلام سے خارج ہوجاؤں اور کافروں میں جاملوں اس وقت تک آپ کا صرف مجدد ہونے کا دعویٰ تھا۔ (
2
) مرزا قادیانی کی نبوت کے تدریجی مراحل :۔ پھر اس کے بعد آپ مثیل مسیح بنے۔ پھر مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کردیا۔ اسی بنا پر آپ نے رفع عیسیٰ کا انکار کردیا بلکہ بذریعہ کشف والہام کشمیر میں آپ کی قبر کی نشاندہی بھی فرما دی اور اعلان فرمایا کہ : ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے پھر اس کے بعد آپ نے کھل کر اپنی نبوت کا دعویٰ کردیا اور یہ بھی کہ مجھ پر وحی آتی ہے اور میں اللہ سے ہم کلام ہوتا ہوں۔ پھر جب آپ ہی کی تحریروں کے مطابق علماء نے آپ پر گرفت کی تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ میں کوئی مستقل نبی نہیں نہ ہی کوئی صاحب شریعت رسول ہوں بلکہ آپ کی اطاعت ہی کی وجہ سے نبی ہوا ہوں اور آپ ہی کا ظل اور بروز (یعنی سایہ یا عکس) ہوں آپ کی اسی ظلی اور بروزی کی اصطلاح پر مولانا ظفر علی خان ایڈیٹر روزنامہ زمیندار نے ایک بار یوں تبصرہ کیا تھا : بروزی ہے نبوت قادیان کی برازی ہے خلافت قادیان کی گویا آپ بتدریج نبی بنے تھے، پہلے مجددیت کے مدعی تھی پھر مثیل مسیح کے، پھر مسیح موعود کے پھر جب کچھ کام چلتا دیکھا تو نبوت کا دعویٰ کردیا اور قادیان کی سرزمین کو حرام قرار دیتے ہوئے فرمایا : زمین قادیان ارض حرم ہے ہجوم خلق سے اب محترم ہے اگر غور کیا جائے تو آپ کی تدریجی نبوت ہی آپ کے نبوت کے دعویٰ کے ابطال کے لئے بہت کافی ہے کیونکہ تمام تر سلسلہ انبیاء میں سے کوئی نبی اس طرح بتدریج نبی نہیں بنایا گیا تاہم آپ کی پیش کردہ توجیہات کا بھی ہم جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ (
3
) ظلی اور بروزی نبی کی اصطلاح : آپ کی پہلی توجیہ یہ ہے کہ آپ کو رسول اللہ کی اطاعت کرتے کرتے یہ درجہ ظلی نبوت حاصل ہوا۔ گویا آپ کے نظریہ کے مطابق نبوت وہبی نہیں بلکہ کسبی چیز ہے اس نظریہ کی قرآن نے (وَاللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہ، ) کہہ کر بھرپور تردید کی ہے۔ علاوہ ازیں اگر نبوت کسبی چیز ہوتی اور آپ کی اتباع کامل کی وجہ سے حاصل ہوسکتی ہے تو اس کے سب سے زیادہ حقدار صحابہ کرام تھے۔ بالخصوص سیدنا عمر جن کے متعلق صراحت سے احادیث مبارکہ میں آیا ہے ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔ اور ظل اور بروز کا نظریہ تو کئی لحاظ سے آپ کی نبوت کا ابطال کرتا ہے۔ مثلاً (
4
) رسول اللہ شاعر نہیں تھے۔ آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ شاعری آپ کے شایان شان بھی نہیں۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے سورة یسین کی آیت نمبر
69
اور اس کا حاشیہ) جبکہ مرزا صاحب شاعر تھے۔ آپ نے اردو، عربی، فارسی میں بہت سے اشعار اور قصیدے لکھے حتیٰ کہ ایک بہت بڑی کتاب بطور کلیات مرزا صاحب مسمی بہ درثمین تصنیف اور شائع کی ہے۔ اگر آپ رسول اللہ کے کا ظل اور بروز ہیں تو آپ تو شاعر نہیں تھے۔ یہ عکس میں شاعری کہاں سے آگئی ؟ مطلب واضح ہے کہ مرزا صاحب رسول اللہ کا عکس نہیں۔ (
5
) آپ کی تضاد بیانی کا یہ حال ہے کہ ایک وقت آپ دعویٰ نبوت کو کفر سمجھتے تھے پھر مثیل مسیح بنے، پھر مسیح موعود بنے، پھر نبوت کا دعویٰ کیا پھر یہ بھی دعویٰ کردیا کہ تمام انبیاء کی خوبیاں مجھ میں جمع اور موجود ہیں۔ چناچہ اس درثمین میں اردو زبان میں کہا کہ : میں کبھی عیسیٰ کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں۔۔ نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بےشمار فارسی میں کہا : انبیاء کرچہ بودہ اند بسے من بعرفان نہ کمترم زک سے۔۔ آنچہ داد ست ہر نبی را جام داد آں جام را مرابہ تمام ترجمہ : اگر انبیاء بہت گزرے ہیں تاہم میں معرفت میں کسی سے کم نہیں ہوں۔ ان میں جس کسی کو کوئی جام معرفت دیا گیا وہ سب کے سب جام مجھے دیئے گئے ہیں۔ اپنی ذات سے متعلق ایسی تضاد بیانی کو رسول اللہ کا عکس کہا جاسکتا ہے ؟ یا سابقہ انبیاء میں سے کسی کو تدریجاً کبھی نبی بنایا گیا ہے ؟ (
6
) چھٹی بات آپ کے مخالفوں کے حق میں آپ کی بدزبانی ہے جنہیں آپ ولدالزنا اور ولد الحرام کہہ کر پکارا کرتے ہیں اور آئینہ کمالات اسلام میں فرمایا کہ ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا (یعنی کنجریوں کی اولاد) کے علاوہ ہر مسلمان نے مجھے قبول کیا اور میری دعوت کی تصدیق کی بالفاظ دیگر جن مسلمانوں نے میری نبوت کی تصدیق نہیں کی وہ سب کنجریوں کی اولاد ہیں اور ایک بار اپنے مخالف پر لعنت بھیجنے کو جی چاہا تو ہزار بار لعنت کہنے یا لکھنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ فی الواقع ہزار بار لعنت کا لفظ لکھ کر کتاب کے تین چار صفحے سیاہ کر ڈالے۔ کیا یہ بھی رسول اللہ کی اطاعت کا نمونہ اور ان کا عکس ہے ؟ کیا رسول اللہ سے اپنے مخالفوں کے حق میں ایسی غلیظ گالیاں ثابت کی جاسکتی ہیں ؟ (
7
) آپ کی نبوت کی تردید پر دلائل :۔ اور جب اپنی کسر نفسی پر آتے ہیں تو بھی غلیظ زبان استعمال کرتے اور حقائق کا منہ چڑاتے ہیں۔ درثمین ہی میں فرماتے ہیں : کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں۔۔ ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار یعنی اے میرے پیارے میں نہ تو مٹی کا کیڑا ہوں اور نہ آدم کی نسل سے ہوں۔ بلکہ میں بشر کی جائے نفرت ہوں جس سے سب لوگوں کو شرم آئے۔ اب آپ خود ہی فیصلہ فرما لیجئے کہ وہ بشر کی جائے نفرت کیا چیز ہوسکتی ہے۔ بس وہی چیز مرزا صاحب تھے۔ بایں ہمہ آپ کا دعویٰ یہ ہے آپ کا عکس ہیں۔ نیز آپ نہ مٹی سے پیدا ہوئے تھے نہ آدم کی نسل سے تھے۔ تو پھر کیا تھے ؟ سابقہ انبیاء تو سب آدم زاد ہی تھے۔ (
8
) قرآن اور احادیث میں جہاد فی سبیل اللہ اور بالخصوص قتال فی سبیل اللہ پر جس قدر زور دیا گیا ہے اور جتنے فضائل کتاب و سنت میں مذکور ہیں وہ سب کو معلوم ہیں۔ حتیٰ کہ رسول اللہ نے خود سترہ غزوات میں حصہ لیا۔ اور ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ یہ جہاد تاقیامت جاری رہے گا۔ لیکن مرزا صاحب نے اس جہاد کی ممانعت کا یوں فتوی دیا کہ : اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستوں خیال۔۔ دین کے لئے حرام ہے اب جنگ و قتال دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد۔۔ منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد (درثمین ص
53
) آخری مصرع میں نبی سے مراد غالباً مرزا صاحب خود ہیں۔ غور فرمائیے کہ ایسا شخص رسول اللہ کا عکس ہوسکتا ہے ؟ جبکہ رسول اللہ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا کہ : میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں شہید ہوجاؤں، پھر زندہ ہوں پھر مارا جاؤں، پھر زندہ ہوں پھر مارا جاؤں (بخاری۔ کتاب التمنی۔ باب من تمنی الشہادۃ) پھر یہ بھی غور فرمایئے مرزا صاحب رسول اللہ کا عکس ہیں یا ان کی آرزو اور تعلیم کو ملیا میٹ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں اور ان کی ضد ہیں۔ (
9
) جہاد بالسیف کی بھرپور مخالفت :۔ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے حکومت وقت کا ساتھ دیا ہو بلکہ نبی کا تو کام ہی یہ ہوتا ہے کہ بگڑے ہوئے معاشرہ کی اصلاح کرے اور سرکاری درباری حضرات، آسودہ حال طبقہ اور چودھری لوگ ہمیشہ انبیاء کے مخالف رہے ہیں۔ مگر یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا صاحب اور ان کی نبوت انگریز بہادر کے سایہ عاطفت میں پروان چڑھتی ہے۔ اور آپ بھی ہر وقت گورنمنٹ عالیہ کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں نیز وہ اپنی زبان سے اپنے آپ کو گورنمنٹ کا خود کا شتہ پودا ہونے کا اقرار فرماتے ہیں۔ اب دو ہی باتیں ممکن ہیں ایک یہ کہ انگریز کی حکومت کو صحیح اسلامی حکومت تسلیم کرلیا جائے۔ اس صورت میں مرزاصاحب کی نبوت کی ضرورت ہی ختم ہوجاتی ہے کیونکہ نبی ہمیشہ بگاڑ کی اصلاح کے لئے آتا ہے اور دوسری صورت یہی باقی رہ جاتی ہے کہ نبی اپنے دعویٰ نبوت میں جھوٹا ہو۔ اور یہی صورت حال مرزا صاحب کی نبوت پر صادق آتی ہے۔ آپ کا اپنے بارے میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہونے کا اعتراف :۔ ہوا یہ تھا کہ جب ہندوستان میں انگریز بہادر کی حکومت قائم ہوگئی تو ساتھ ہی زیر زمین جہاد کی تحریک شروع ہوگئی جس سے انگریز کو ہر وقت خطرہ لاحق رہتا تھا۔ اس نے اس کا حل یہ سوچا کہ مسلمانوں کی آپس میں پھوٹ ڈال دی جائے اور دوسرے جہاد کی روح کو حتی الامکان مسلمانوں کے اذہان سے خارج کردیا جائے۔ ان کاموں کے لئے اس کی نظر انتخاب مرزا غلام احمد قادیانی پر پڑی۔ مرزا صاحب نے انگریز بہادر کے دونوں کام سرانجام دیئے۔ جہاد بالسیف کی جی بھر کر مخالفت کی اور اپنے پیروکاروں کے علاوہ باقی سب مسلمانوں پر کفر کا فتویٰ بھی لگا دیا۔ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ مرزائی مسلمانوں کا جنازہ تک نہیں پڑھتے۔ قائداعظم کی نماز جنازہ کے وقت سرظفر اللہ خاں پرے ہی کھڑے رہے مگر نماز جنازہ میں شریک نہ ہوئے۔ اور انگریز نے مرزا صاحب کے ان احسانات کا بدلہ یہ دیا کہ ان کی نبوت اور ان کی امت کو پورا پورا تحفظ دیا اور انھیں زیادہ سے زیادہ ملازمتیں دے کر انھیں حکومت میں آگے لے آیا۔ یہی وجہ ہے کہ مرزائی اقلیت میں ہونے کے باوجود حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں۔ علاوہ ازیں ان حضرات کو ہر طرح مراعات بھی دی جاتی ہیں۔ (
10
) محمدی بیگم سے نکاح کی پیشگوئی کا حشر :۔ آپ کی نبوت کے ابطال پر دسویں دلیل آپ کی جھوٹی پیشین گوئیاں ہیں۔ آپ محمدی بیگم سے نکاح کرنا چاہتے تھے۔ تو آپ نے مشہور کردیا کہ مجھے بذریعہ وحی معلوم ہوا ہے کہ میرا محمدی بیگم سے آسمانوں پر نکاح ہوا ہے۔ محمدی بیگم کے اولیاء سے جو مرزا صاحب کی اپنی برادری کے لوگ تھے، مرزا صاحب نے درخواست کی تو انہوں نے رشتہ دینے سے انکار کردیا۔ جس پر آپ اپنی وحی کی بنا پر کئی طرح کی دھمکیاں اور وعیدیں محمدی بیگم کے اولیاء کو سناتے رہے۔ لیکن ان لوگوں پر مرزا صاحب کی دھمکیوں کا خاک بھی اثر نہ ہوا۔ اور نہ ہی ان دھمکیوں کے مطابق انھیں کچھ نقصان پہنچا۔ انہوں نے محمدی بیگم کو کسی دوسری جگہ بیاہ دیا۔ جہاں اسکے ہاں اولاد بھی ہوئی اور سکھ چین سے زندگی بسر کرتی رہی اور مرزا صاحب اس سے شادی کی حسرت دل میں لئے اگلے جہاں کو سدھار گئے۔ اور آسمانوں کا نکاح آسمانوں پر ہی رہ گیا زمین پر نہ ہوسکا۔ بعد میں آپ کے متبعین نے مرزا صاحب کے الہامات اور وحیوں کی یہ تاویل فرمائی کہ کسی دور میں مرزا صاحب کی اولاد در اولاد میں سے کسی لڑکے کا محمدی بیگم کی اولاد در اولاد میں سے کسی لڑکی سے نکاح ضرور ہوگا۔ ایسی اندھی عقیدت بھی قابل ملاحظہ ہے۔ (
11
) مولانا ثناء اللہ امرتسری سے مباہلہ اور مرزا صاحب کی وفات :۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری کے مرزا صاحب سخت دشمن تھے۔ کیونکہ وہ بھی ہاتھ دھو کر مرزا صاحب کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔ آخر مرزا صاحب نے مولوی ثناء اللہ کو
15
۔ اپریل
1907
ء کو ایک طویل خط لکھا جس کا ماحصل یہ تھا کہ اے اللہ ! اگر میں جھوٹا اور مفتری ہوں تو میں ثناء اللہ کی زندگی میں ہلاک ہوجاؤں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ کذاب اور مفتری کی لمبی عمر نہیں ہوتی۔ اور اگر ثناء اللہ جھوٹا ہے تو اسے میری زندگی میں نابود کر مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون اور ہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے اور ساتھ ہی مرزا صاحب نے یہ استدعا بھی کی کہ میرے اس خط کو من و عن اپنے اخبار میں شائع کردیا جائے۔ چناچہ مولوی ثناء اللہ امرتسری نے مرزا صاحب کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس طویل خط کو اپنے ہفت روزہ اہلحدیث کی
25
مئی
1907
ء کی اشاعت میں شائع کردیا۔ اس خط کا انداز بیان اگرچہ دعائیہ تھا تاہم مرزا صاحب نے بذریعہ الہام اس بات کی توثیق فرما دی کہ ان کی دعا قبول ہوگئی اور یہ الہام البدر قادیان
25
اپریل
1907
ء میں شائع ہوا۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرزا صاحب اس سے تیرہ ماہ بعد
26
مئی
1908
ء کو بعارضہ ہیضہ بمقام لاہور انتقال کر گئے اور مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب اللہ کے فضل سے مارچ
1948
ء تک یعنی مرزا صاحب کی وفات سے چالیس سال بعد تک زندہ رہے۔ مرزا صاحب کے انتقال کے بعد جب یہ شور اٹھا کہ مرزا صاحب اپنے دعوائے نبوت میں جھوٹے ثابت ہوئے تو اتباع مرزا نے اس شرط کو بدل دینا چاہا کہ شرط دراصل یہ تھی کہ جو جھوٹا ہوگا وہ زندہ رہے گا اور مباحثہ کرنا چاہا اور خود ہی یہ صورت پیش کی کہ فیصلہ کے لئے ایک غیر مسلم ثالث ہوگا اور ہم اگر ہار جائیں تو مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب کو تین سو روپے (یعنی آج کے لحاظ سے کم از کم تیس ہزار روپے) دیں گے۔ ورنہ مولوی ثناء اللہ ہمیں اتنی ہی رقم دے۔ اس اعلان کے مطابق اپریل
1912
ء میں بمقام لودھیانہ مباحثہ ہوا جس میں ثالت سردار بچن سنگھ جی پلیڈر لودھیانہ مقرر ہوئے۔ اس مباحثہ میں ثالث نے مولانا ثناء اللہ کے حق میں فیصلہ دیا اور انعام یا شرط کی مجوزہ رقم آپ کو مل گئی۔ یہ تھی مرزا صاحب کی ذات گرامی جو اپنے آپ کو رسول اللہ کا ظل اور بروز ہونے کی مدعی تھی۔ اور جو حکومت پاکستان نے
1974
ء میں قومی اسمبلی میں کثرت رائے کی بنا پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا تو اس کی وجہ ان صریح احادیث کا انکار ہے جو ہم ابتدا میں درج کر آئے ہیں بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص رسول اللہ کی رسالت پر ایمان بھی لائے پھر ان کی بات بھی نہ مانے بلکہ آپ کے ارشادات کے علی الرغم نہ صرف ان احادیث کا انکار کرے بلکہ اپنی نبوت و رسالت کا بھی دعویٰ کرے۔ خ حکومت پاکستان کا مرزائیوں کو کافر قرار دینا :۔ مرزائی حضرات مرزا صاحب کی نبوت کی صداقت پر عموما سورة الحاقہ کی آیات نمبر
44
تا
46
پیش کیا کرتے ہیں کہ اگر یہ رسول (یعنی محمد ﷺ اپنے پاس سے کوئی بات گھڑ کر ہمارے ذمہ لگا دے تو ہم اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی رگ جان کاٹ دیں اور وجہ استدلال یہ بیان کی جاتی ہے کہ نبی کا زمانہ نبوت
23
سال ہے اور مرزا صاحب تو اس مدت سے زیادہ زندہ رہے اگر انہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا تو اللہ کی طرف سے ایسی کوئی سزا ضرور ملنا چاہئے تھی اور جب ایسی سزا نہیں ملی تو معلوم ہوا کہ آپ اپنے دعویٰ نبوت میں سچے تھے۔ اس کا تفصیلی جواب تو ہم سورة الحاقہ میں ہی دیں گے۔ مختصراً یہ کہ اگر ایسا افترا کوئی نبی لگائے تو اسے تو یقینا ایسی سزا بھی ملے گی۔ لیکن کوئی عام شخص اللہ پر جھوٹ باندھے تو یہ سزا نہیں ملتی جیسے ایک گورنر اپنی طرف سے کوئی فرمان جاری کرکے اسے صدر مملکت کے ذمہ لگائے تو اس سے ضرور مواخذہ ہوگا۔ لیکن ایک خاکروب یا کوئی عام آدمی صدر کے خلاف جو جی چاہے بکتا رہے۔ اسے کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ مرزا صاحب کو ایسی سزا نہ ملنے سے تو الٹا آپ کی نبوت کی تردید ہوجاتی ہے۔ خ قادیانیوں کی طرف سے آپ کی نبوت پر دلائل اور ان کا جواب :۔ مرزائی حضرات نبوت کے اجراء کے لئے ایک عقلی دلیل بھی دیا کرتے ہیں۔ کہ نبوت اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ جس کے لوگ ہر وقت محتاج ہیں۔ بالخصوص آج کے دور انحطاط میں تو ایسی رحمت کی اشد ضرورت ہے۔ لہذا خاتم کے معنی مہر تصدیق ہونا چاہیں۔ یعنی اس نبی کی نبوت درست ہوگی جو رسول اللہ کی تصدیق کرتا ہو اور آپ کی شریعت کا متبع ہو۔ اس دلیل کے جوابات درج ذیل ہیں :
1
۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ
40
)
33
۔ الأحزاب :
40
) اور ساتھ ہی فرما دیا کہ : (وَكَان اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا
40
)
33
۔ الأحزاب :
40
) یعنی اللہ تعالیٰ اس بات کو بھی خوب جانتا ہے کہ آئندہ تاقیامت کسی نبی کو بھیجنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
2
۔ یہ دلیل جو کچھ بھی ہے بہرحال ایک عقلی دلیل ہے۔ اور نص کے مقابلہ میں قیاس یا عقل کے گھوڑے دوڑانا حرام ہے۔
3
۔ ان حضرات کا دعوائے ضرورت اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ رسول اللہ نے واشگاف الفاظ میں بتادیا کہ میری امت میں سے ایک فرقہ تاقیامت حق پر قائم رہے گا صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! وہ کون سا گروہ ہوگا۔ آپ نے فرمایا : جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں (ترمذی۔ کتاب الایمان۔ باب الافتراق ھذہ الامۃ) گویا آج صرف دیکھنے کا کام یہ ہے کہ وہ کون سا فرقہ یا گروہ ہے جو صرف کتاب و سنت سے رہنمائی لیتا ہے۔ اس میں کچھ کمی بیشی نہیں کرتا نہ کتاب و سنت کے مقابلہ میں کسی دوسری شخصیت کا قول یا فتویٰ قبول کرتا ہے اور نہ ہی دین میں کوئی نئی بات، خواہ عقیدہ سے تعلق رکھتی ہو یا عمل سے، شامل کرتا ہے۔ اور ایسے گروہ کی موجودگی کسی نئے نبی کی آمد کی ضرورت کو ختم کردیتی ہے۔ اور ایسا فرقہ چونکہ تاقیامت باقی رہے گا لہذا تاقیامت کسی نبی کی ضرورت باقی نہ رہی۔ خنئے نبی کی ضرورت کس صورت میں ہوتی ہے :۔ علاوہ ازیں انبیاء کی بعثت کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ سابقہ قومیں یا امتیں کتاب اللہ میں تحریف کر ڈالتی ہیں یا ان میں علمائے امت کے اقوال اور الحاقی مضامین شامل کرکے کتاب اللہ کو گڈ مڈ کردیتی ہیں نبی کا کام یہ ہوتا ہے کہ جو سچی الہامی تعلیم ہوتی ہے اس کی نشاندہی کرتا اور اس کے متعلق دو ٹوک فیصلہ دیتا ہے۔ لیکن امت مسلمہ میں یہ صورت بھی نہیں ان کے پاس کتاب اللہ اسی صورت میں موجود اور محفوظ ہے جس صورت میں آپ پر نازل ہوئی تھی۔ پھر کتاب اللہ کے علاوہ اس کی تشریح و تفسیر بھی، جسے حدیث یا سنت کہا جاتا ہے، امت کے پاس موجود اور محفوظ ہے۔ تو پھر آخر کسی نئے نبی کی ضرورت بھی کیا تھی ؟ کیا یہی کہ وہ کتاب اللہ پر ایمان رکھنے والوں میں انتشار ڈال دے اور باقی سب مسلمانوں پر کفر کے فتوے صادر کرنے لگے ؟
67
یعنی وہ ان لوگوں کے اعمال سے خوب واقف ہے جنہوں نے اودھم مچا رکھا ہے۔ اور وہ اپنے احکام کی مصلحتوں کو بھی خوب جانتا ہے۔
Top