Taiseer-ul-Quran - Faatir : 22
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ
وَمَا يَسْتَوِي : اور نہیں برابر الْاَحْيَآءُ : زندے وَلَا : اور نہ الْاَمْوَاتُ ۭ : مردے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُسْمِعُ : سنا دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ ۚ : جس کو وہ چاہتا ہے وَمَآ اَنْتَ : اور تم نہیں بِمُسْمِعٍ : سنانے والے مَّنْ : جو فِي الْقُبُوْرِ : قبروں میں
اور نہ ہی زندے اور مردے 28 یکساں ہوتے ہیں۔ اللہ تو جسے چاہے سنا سکتا ہے لیکن آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں 29 میں پڑے ہیں
28 یہاں زندہ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے دل اور ضمیر زندہ ہیں۔ جو بدی کو بدی ہی سمجھتے ہیں اور نیکی کی راہ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ پھر اس پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ اور مردہ سے مردہ دل لوگ یا کافر ہیں۔ ان کے ضمیر اور ان کے دل اس قدر مرچکے ہیں کہ ہدایت کی بات ان کے دل تک پہنچتی ہی نہیں۔ نہ وہ اسے سننا گوارا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ کا ایسے لوگوں کو نصیحت کرنا بےسود ہے۔ 29 سماع موتی کا رد :۔ ربط مضمون کے لحاظ سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ قبروں میں پڑے لوگوں سے مراد یہی مردہ دل کافر لوگ ہیں مگر الفاظ کے ظاہری معنوں کا اعتبار کرنا زیادہ صحیح ہوگا۔ یعنی جو لوگ قبروں میں جاچکے ہیں انہیں اللہ تو سنا سکتا ہے آپ نہیں سنا سکتے۔ کیونکہ قبروں میں پڑے ہوئے لوگ عالم برزخ میں جا پہنچے ہیں۔ عالم دنیا میں نہیں ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک سویا ہوا شخص اپنے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کی گفتگو نہیں سن سکتا۔ اس لیے عالم خواب الگ عالم ہے۔ اور عالم بیداری الگ عالم ہے۔ حالانکہ یہ دونوں عالم، عالم دنیا سے ہی متعلق ہیں مگر عالم برزخ دنیا سے متعلق نہیں بالکل الگ عالم ہے۔ لہذا قبروں میں پڑے ہوئے لوگ بدرجہ اولیٰ دنیا والوں کی بات سن نہیں سکتے۔ یہ آیت سماع موتی کا کلیتاً رد ثابت کرتی ہے۔ رہا قلیب بدر کا واقعہ جو احادیث صحیحہ میں مذکور ہے۔ کہ جنگ بدر میں ستر مقتول کافروں کی لاشیں بدر کے کنوئیں میں پھینک دی گئیں۔ تو تیسرے دن رسول اللہ نے اس کنوئیں کے کنارے کھڑے ہو کر فرمایا : تمہارے مالک نے جو سچا وعدہ تم سے کیا تھا وہ تم نے پالیا ؟ لوگوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! کیا آپ مردوں کو سناتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تم کچھ ان سے زیادہ نہیں سنتے، البتہ وہ جواب نہیں دے سکتے (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب قتل ابی جھل۔۔ بخاری کتاب الجنائز۔ باب ماجاء فی عذاب القبر) اور سیدنا قتادہ نے اس حدیث کی تفسیر میں کہا کہ اللہ نے اس وقت ان مردوں کو جلا دیا تھا ان کی زجز و توبیخ، ذلیل کرنے، بدلہ لینے اور شرمندہ کرنے کے لیے (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب قتل ابی جھل) گویا یہ ایک معجزہ تھا اور فی الحقیقت سنانے والا اللہ تعالیٰ ہی تھا۔ اور یہ اس آیت کا مفہوم ہے۔
Top