Taiseer-ul-Quran - An-Nisaa : 103
فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِكُمْ١ۚ فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ١ۚ اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا   ۧ
فَاِذَا : پھر جب قَضَيْتُمُ : تم ادا کرچکو الصَّلٰوةَ : نماز فَاذْكُرُوا : تو یاد کرو اللّٰهَ : اللہ قِيٰمًا : کھڑے وَّقُعُوْدًا : اور بیٹھے وَّعَلٰي : اور پر جُنُوْبِكُمْ : اپنی کروٹیں فَاِذَا : پھر جب اطْمَاْنَنْتُمْ : تم مطمئن ہوجاؤ فَاَقِيْمُوا : تو قائم کرو الصَّلٰوةَ : نماز اِنَّ : بیشک الصَّلٰوةَ : نماز كَانَتْ : ہے عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) كِتٰبًا : فرض مَّوْقُوْتًا : (مقررہ) اوقات میں
پھر جب تم نماز ادا کر چکو تو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرو اور جب اطمینان حاصل ہوجائے تو پھر پوری نماز ادا کرو۔ بلاشبہ مومنوں پر نماز اس کے مقررہ اوقات 141 کے ساتھ فرض کی گئی ہے
141 نمازوں کے اوقات جنگ میں نماز اسی وقت ہی ادا کی جاسکتی ہے جب موقع ملے، اس دوران بھی اللہ کو ہر وقت یاد رکھنا چاہیے پھر جب حالات معمول پر آجائیں تو نماز بھی معمول کے مطابق پڑھی جائے اور نمازوں کے اوقات کا بھی خیال رکھا جائے۔ احادیث کی رو سے نمازوں کے اوقات درج ذیل ہیں : 1۔ آپ نے فرمایا ظہر کا وقت سورج ڈھلنے سے لے کر آدمی کا سایہ اس کے برابر ہونے تک ہے۔ اور عصر کا وقت (سایہ برابر ہونے سے لے کر) دھوپ میں زردی آنے تک ہے۔ اور نماز مغرب کا وقت (سورج غروب ہونے سے لے کر) شفق غائب ہونے تک ہے اور عشاء کا وقت (شفق غائب ہونے سے لے کر ٹھیک آدھی رات تک ہے اور صبح کا وقت طلوع فجر سے لے کر طلوع آفتاب تک ہے (مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلٰوۃ باب اوقات الصلٰوۃ الخمس) 2۔ عبداللہ بن عمر ؓ اور ابوہریرہ ؓ دونوں فرماتے ہیں، آپ نے فرمایا گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھا کرو اس لیے کہ گرمی کی سختی دوزخ کی بھاپ سے ہوتی ہے (بخاری، کتاب، مواقیت الصلٰوۃ، باب الابراد بالظھر فی شدۃ الحر۔۔ مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ باب استحباب الابراد بالظھر فی شدۃ الحرم 3۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہم عورتیں چادروں میں لپٹی ہوئی جب نماز صبح سے فارغ ہو کر مسجد سے نکلتیں تو اندھیرے کی وجہ سے کوئی ان کو پہچان نہ سکتا تھا۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب وقت الفجر) 4۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ آپ نے عشا کی نماز اس وقت پڑھائی جب رات کا کافی حصہ گزر چکا تھا۔ پھر فرمایا اگر میری امت پر یہ بات شاق نہ ہوتی تو عشاء کی نماز کا اصل وقت یہی وقت ہے (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب النوم قبل العشاء لمن غلب 5۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ آپ صبح کی نماز اس وقت پڑھاتے جب ہم میں سے کوئی شخص (فراغت کے بعد) اپنے ساتھ والے کو پہچان لیتا اور آپ اس نماز میں ساٹھ سے لے کر سو تک آیتیں پڑھتے۔ اور ظہر اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔ اور عصر اس وقت کہ کوئی شخص عصر پڑھ کر شہر کے پرلے حصہ (تقریباً چار میل) تک اپنے گھر جاتا تو سورج ابھی تیز ہوتا اور شام سورج غروب ہونے پر اور عشاء کی نماز میں تہائی رات تک دیر کرنے کی پروا نہیں کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب وقت الظہر عند الزوال) 6۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب کوئی شخص سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالے وہ اپنی نماز پوری کرے (اس کی نماز ادا ہوئی یا قضا) اور جو سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالے وہ بھی اپنی نماز پوری کرے۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب من ادرک رکعۃ من العصر قبل الغروب) 7۔ سیدنا ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے صبح کی نماز کے بعد سورج چڑھنے تک نماز پڑھنے سے منع کیا۔ اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ باب الصلٰوۃ بعد الفجر حتی ترتفع الشمس) 8۔ عبداللہ بن ابی قتادہ ؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم (خیبر سے واپسی پر) رات کو آپ کے ہمراہ سفر کر رہے تھے۔ بعض لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا اچھا ہو جو یہاں اتر پڑیں۔ آپ نے فرمایا مجھے خطرہ ہے کہ تم سو جاؤ گے اور نماز فجر کے لیے نہ اٹھو گے۔ سیدنا بلال ؓ نے کہا میں جگا دوں گا۔ چناچہ سب لوگ سو گئے۔ اور بلال ؓ نے اپنی اونٹنی سے پیٹھ لگائی تو نیند نے غلبہ کیا اور وہ بھی سو گئے پھر آپ اس وقت اٹھے جب سورج کا کنارہ نکل آیا تھا۔ آپ نے بلال ؓ سے پوچھا تمہارا قول کہاں گیا ؟ بلال ؓ کہنے لگے مجھے تو ایسی نیند آئی جیسے پہلے کبھی نہ آئی تھی۔ آپ نے فرمایا اللہ نے جب چاہا تمہاری روحیں قبض کرلیں اور جب چاہا تمہیں واپس دے دیں۔ اے بلال اٹھ اور نماز کے لیے اذان دے چناچہ بلال ؓ نے اذان دی۔ آپ نے وضو کیا اور جب سورج ذرا بلند اور سفید ہوگیا تو آپ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ۔ باب الاذان بعد ذھاب الوقت 9۔ سیدنا انس ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص نماز ادا کرنا بھول جائے یا اس وقت سویا ہوا ہو تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ یاد آتے ہی ادا کرلے۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب من نسی صلٰوۃ فلیصل اذا ذکرھا۔۔ مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلٰوۃ، باب قضاء الصلٰوۃ الفائتۃ۔۔ الخ) 10۔ آپ نے فرمایا منافق کی نماز یہ ہے کہ وہ سورج کو دیکھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان آجاتا ہے تو اٹھتا ہے اور چار ٹھونگیں مار لیتا ہے اور اللہ کا ذکر تھوڑا بہت ہی کرتا ہے (مسلم، کتاب الصلٰوۃ، باب استحباب التبکیر بالعصر) 11۔ سیدنا ام فروہ ؓ کہتی ہیں کہ کسی نے آپ سے پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا نماز اول وقت پر ادا کرنا۔ (ترمذی، ابو اب الصلٰوۃ، باب ماجاء فی الوقت الاول من الفضل 12۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ کی خوشنودی نماز کو اول وقت ادا کرنے میں ہے اور آخر وقت میں ادا کرنا اللہ کی طرف سے معافی ہے۔ (ترمذی، حوالہ ایضاً ) 13۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی بھی نماز آخر وقت میں نہ پڑھی مگر صرف دو بار۔ یہاں تک کہ وفات پائی (ترمذی، حوالہ ایضاً ) 14۔ سیدنا علی ؓ بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا علیص تین باتوں میں تاخیر نہ کرنا (1) نماز میں جب اس کا وقت آجائے (2) جنازہ کی تدفین میں جب تو وہاں موجود ہو (3) اور رنڈوے مرد یا رنڈوی عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا بر (کفو) مل رہا ہو۔ (ترمذی، حوالہ ایضاً )
Top